سپہ سالار کی مد ملازمت ۔مقننہ فیصلہ کرے

186

عدالت عظمیٰ نے ملک میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے ۔ پارلیمنٹ کا ادارہ قائم اسی لیے کیا گیا ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق قانون سازی کرے ۔ اسی لیے پارلیمنٹ کو عرف عام میں مقننہ کہا جاتا ہے ۔ انتظامیہ کا کام قانون پر عملدرآمد اور عدلیہ کا کام اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل ہورہا ہے کہ نہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ مقننہ میں اکثریت کے اعتماد کا حامل وزیر اعظم اب تک بلا کسی قانون کے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرتا رہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور انتہائی دانشمندی سے ملک کوکسی ڈیڈ لاک سے بچانے کے لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی عبوری توسیع کی اجازت دیتے ہوئے مقننہ کو ہدایت کی ہے کہ اس ضمن میں ضروری قانون سازی کرلے ۔ اگر مقننہ اس عرصے میں قانون سازی میں ناکام رہتی ہے تو عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چھ ماہ کی عبوری مدت مکمل ہونے کے بعد موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے منصب سے ریٹائر تصور ہوں گے ۔ اصولی طور پر تو کوئی بھی شخص ہو اور کسی بھی منصب پر بیٹھا ہو ، اس کی مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ ادارے مضبوط ہونے چاہییں نہ کہ اشخاص ۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی آرمی چیف ریٹائر ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ ڈپٹی آرمی چیف نے بھارتی فوج کے نئے سربراہ کا منصب سنبھال لیا ہے ۔ امریکی فوج کی مثالیں موجود ہیں کہ عین عالم جنگ میںفوج کے چار سربراہ تبدیل کیے گئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عین جنگ کے دوران حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تبدیل کردیا تھا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ فیصلے کو خوشدلی سے قبول کرتے ہوئے نومقرر کردہ سپہ سالار کی اطاعت بھی قبول کرلی تھی ۔ آرمی چیف کی تعیناتی کو مسئلہ نہیں بنایا جانا چاہیے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی پیشہ ورانہ صلاحیت سے کسی کواختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح ان سے قبل کے فوج کے سربراہوںکی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے ۔ یہ پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ تربیت کا اعجاز ہے کہ ہر آنے والے سربراہ نے پاکستان کی فوج کے معیار کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ اگر مقننہ یہ سمجھتی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہیے بہتر ہوگا کہ آرمی چیف کی مدت کو تین سال کے بجائے چھ سال کردیا جائے ۔ کسی ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے وزیر اعظم عمران خان نیازی کیا یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اہل ہیں اور دیگر نااہل تھے ۔ ہر آرمی چیف کی تقرری سربراہ حکومت ہی کرتا ہے ۔ اگر کوئی آرمی چیف اس قابل نہیں ہے کہ اس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے تو پھر اس کا مطلب ہی یہ ہونا چاہیے کہ مذکورہ تقرری کرنے والا وزیر اعظم ہی اس قابل نہیں تھا کہ وہ کسی اہل فرد کی تقرری کرسکتا ۔ اب یہ مقننہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے دیے گئے فیصلے کی روح کے مطابق قانون سازی کرے ۔ اگر مدت ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو ہر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے ۔ توسیع کے ہتھیار کو وزیر اعظم کے ہاتھ میں دینے کا مطلب ہی یہ ہوگا کہ جو بھی فوج کا سربراہ ہوگا ، اس کے سر پر نوکری کی تلوار لٹکتی رہے گی اور وہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو کماحْقہ ادا نہیں کرسکے گا ۔ مقننہ نے اگر بالغ نظری کا ثبوت نہ دیا تو فوج جیسا پیشہ ورانہ اور انتہائی اہمیت کا ادارہ بھی سیاست زدہ ہوجائے گا ۔ اصولی طور پر وزیر اعظم سے فوج کے سربراہ کی تقرری کا صوابدیدی اختیار بھی واپس لے لینا چاہیے ۔ جس طرح عدالت عظمیٰ میں سینئر ترین جج کو نیا چیف جسٹس ازخود مقرر کردیا جاتا ہے ، یہی طریقہ کار فوج کے سربراہ کی تقرری میں بھی اختیار کیا جانا چاہیے ۔ جسے ڈپٹی آرمی چیف مقرر کیا جاتا ہے ، یقینا وہ جنرل بھی پیشہ ورانہ اہلیت کا حامل ہوتا ہوگا ، اسی لیے اسے فوج کے سربراہ کا نائب مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اگر فوج کے سربراہ کو کچھ ہوجائے تو وہ ازخود فوج کی سربراہی فوری طور پر سنبھال لے اور فوج میں قیادت کا بحران نہ پیدا ہو ۔ تو پھر ڈپٹی چیف فوج کا آئندہ سربراہ کیوں نہیں ۔ بہتر ہوگا کہ اس اہم مسئلے کو سیاست کی نذر کرنے کے بجائے اس کی اہمیت کے مطابق مکمل بحث کی جائے اور پھر اس پر متفقہ فیصلہ کیا جائے ۔ چھ ماہ کی مدت قانون سازی کے لیے کم نہیں ہوتی ، تاہم اس مسئلے پر حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں کو سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔ حکومت کے شکروں کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے کہ معاملہ فوج کے سربراہ سے متعلق ہے اس لیے حزب اختلاف والے دم دبا کر دوڑے چلے آئیں گے ۔ یہ بلا وجہ مشتعل کرنے والا رویہ ہے جو اب بہت عام ہوگیا ہے ۔