اللہ تعالیٰ کی ذات بہکنے، بھٹکنے، غلطی کرنے اور بھول چوک سے پاک ہے، لیکن بعض لوگوں کی زبان پرکفریہ جملے آجاتے ہیں، مثلاً: (الف): ’’میری قسمت میں شاید اللہ کچھ لکھنا ہی بھول گیا ہے‘‘۔ (ب): ’’نہ جانے میرا بلاوا کب آئے گا، شاید بنانے والا بھول گیا ہے‘‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اُن کا علم میرے ربّ کے پاس لوحِ محفوظ میںدرج ہے، وہ نہ تو بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے، (طہٰ: 52)‘‘۔ پاکستان میں کفریہ کلمات پر مشتمل گانے چلتے رہے ہیں:
آج میری تقدیر کا مالک سوتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
تقدیر کا مالک اللہ ہے، اس کی شان یہ ہے: ’’نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، (البقرہ:255)‘‘۔ اس کا علم حضوری ہے اور ہر قسم کی غفلت اور سہو سے پاک ہے، اس کی جانب سونے، بھولنے یا غفلت کی نسبت کرنا قرآن کا انکار ہے، اس سے توبہ لازم ہے۔
اسی طرح کفریہ معانی کے حامل کئی اور جملے لوگ سوچے سمجھے بغیر بول دیتے ہیں، مثلاً: ’’ارے یہ تو اتنا چالاک ہے کہ خدا کو بھی دھوکا دیدے‘‘۔ کسی کا یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، خود فریبی ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا: ’’وہ (اپنی دانست میں) اللہ اور مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں، (لیکن درحقیقت) وہ اپنے آپ ہی کو دھوکا دیتے ہیں اور انہیں اس بات کا شعور نہیں ہے، (البقرہ:9)‘‘۔ دھوکا تو اُسے دیا جاسکتا ہے جس سے حقیقت کو چھپانا ممکن ہو، جبکہ اللہ کی شان یہ ہے: ’’اور اگر آپ بلند آواز سے بولیں تو بے شک وہ آہستہ اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ بات کوخوب جانتا ہے، (طہٰ:7)‘‘۔ (2) ’’اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور (اس کو بھی) جو سینوں میں چھپا ہے، (المومن: 19)‘‘۔ پس کس کی مجال کہ اُسے دھوکا دے۔
بعض لوگ بھولے بھالے اور سیدھے سادے آدمی کے لیے ’’اللہ میاں کی گائے‘‘ کا محاورہ استعمال کرتے ہیں، نیز روز مرّہ زبان میں بھی لوگ ’’اللہ میاں‘‘ بولتے ہیں، یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(اے رسول!) آپ کہہ دیجیے! تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکاروگے، اس کے سب ہی نام اچھے ہیں، (بنی اسرائیل: 110)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے اسم ذات ’’اللہ‘‘ ہے، قرآنِ کریم میں اس کے صفاتی نام بھی مذکور ہیں، مثلاً: ’’اَلْمَلِکْ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلسَّلَامُ، اَلْمُؤْمِنْ، اَلْمُھَیْمِنُ، الْعَزِیْزُ، اَلْجَبَّارُ، اَلْمُتَکَبِّرُ، اَلسَّتَّار، اَلْغَفَّار، اَلرَّؤُفُ، اَلرَّحِیْم، اَلْکَرِیْم، سُبْحَان اور دیگر اسمائے مقدّسہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے جو بھی اسماء، صفات اور کلمات استعمال کیے جائیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں۔
’’میاں‘‘ اور ’’سائیں‘‘ ایسے کلمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان نہیں ہیں، خواہ ان کو استعمال کرنے والے کی نیت اچھی ہی ہو، لیکن ان کے معانی میں اہانت کا پہلو موجود ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اسمِ جلالت کے ساتھ ان کلمات کا استعمال درست نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ، اللہ جل شانہٗ اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ یا باری تعالیٰ کے کلمات استعمال کرنے چاہییں، ذیل میں ہم کتبِ لغت کے حوالے سے لفظ ’’میاں‘‘ اور ’’سائیں‘‘ کے معانی درج کر رہے ہیں:
میاں: اردو زبان میں شوہر، خواجہ سرا، ایک کلمہ جس سے برابر والے یا اپنے سے کم درجہ شخص کو خطاب کرتے ہیں، بیٹا وغیرہ معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے، سائیں: خاوند، فقیر، بھکاری ودیگر معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے، (قائد اللغات، فیروز اللغات)۔ آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ معانی اللہ کے شایانِ شان نہیں ہیں، ان میں سے بعض معانی ایسے ہیں جو ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے نَقص اور اہانت کا پہلو رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہماری رائے میں ’’اللہ میاں‘‘ اور ’’اللہ سائیں‘‘ ایسے کلمات بولنے سے احترازکرنا چاہیے اور اپنے گھروں، دفاتر، مجالس اور بچوں کے ساتھ گفتگو میں اللہ کا نام لیتے وقت اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی شان جلالت بلند ترین ہے، وہ ہر نقص، عیب اور کمزوری سے پاک ہے، فرمایا: (۱) ’’آپ کا ربّ جو بڑی عزت والا ہے، ہر اس عیب سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں، (الصافات: 180)‘‘۔ (۲) ’’اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان (ہی) ناموں سے پکارو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں راہِ حق سے انحراف کرتے ہیں، (الاعراف: 180)‘‘۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے: بعض لوگ اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے یہ کلمہ بولتے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے، اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ! اللہ جھوٹ بھی بلواتا ہے، اللہ ہرگز جھوٹ نہیں بلواتا، بندہ خود جھوٹ بولتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (۱) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو، (التوبہ: 119)‘‘۔ (۲): ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو، (الاحزاب: 70)‘‘۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو ’’اِضلال‘‘ (گمراہ کرنے) کی نسبت ہے، اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے، فرمایا (۱): ’’اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑدے، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، (الاعراف: 186)‘‘۔ (۲) ’’اور انہوں نے جو گناہ کیے تھے، ان کی سزا ان کے سامنے آجائے گی اور وہ عذاب ان کا احاطہ کرلے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، (الزمر: 48)‘‘۔ کسی بھی فعل کا کاسب اور فاعل بندہ خود ہوتا ہے، جب وہ کسی کام کے کرنے کا عزم کرلیتا ہے اور ارادہ عمل میں ڈھلتا ہے تو تخلیق اللہ تعالیٰ کا کام ہے، قرآنِ کریم کی اس آیت کا مفہوم یہی ہے: ’’اور اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے، (الصافات: 96)‘‘۔
قرآنِ کریم نے ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے آداب تعلیم فرمائے ہیں کہ ہر نقص، ہر عیب اور ہر کمزوری کی نسبت بندہ اپنی طرف اور ہر کمال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرے، چنانچہ فرمایا: (۱) ’’اور تم کو جو اچھائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے، وہ تمہاری اپنی ذات کی وجہ سے ہے، (النساء: 79)‘‘۔ (۲) ’’اور تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے کرتوتوں کے سبب ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف فرمادیتا ہے، (الشوریٰ: 30)‘‘۔ قتلِ ناحق جرم ہے، عیب ہے، لیکن قصاص میں قاتل کو قتل کرنا عدل ہے اور معاشرے کے لیے بقائے حیات کا سبب ہے، اس لیے فرمایا: ’’اور اے عقل مند لوگو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، (البقرہ: 179)‘‘۔
سیدنا خضرؑ نے سیدنا موسیٰ ؑ کو ’’علم لَدُنِّی‘‘ یا ’’علم الاسرار‘‘ سکھانے کے لیے اس شرط کے ساتھ سفر میں اپنے ساتھ لیا کہ جو کچھ میں کروں گا، آپ اس پر سوال نہیں اٹھائیں گے۔ سیدنا خضرؑ نے اس دوران تین ایسے کام کیے جو ظاہری اعتبار سے شریعت کی نظر میں قابلِ گرفت تھے، چنانچہ سیدنا موسیٰؑ صبر نہ کرسکے اور سوال اٹھالیا۔ آخر میں سیدنا خضرؑ نے ان کاموں کی حکمت بیان کرنے کے بعد کہا: ’’اور میں نے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں کیا، یہ ان کاموں کا راز ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے، (الکہف: 82)‘‘۔ یعنی یہ کام میں نے اللہ کے حکم سے کیے تھے اور ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ تھی اور انہوں نے سیدنا موسیٰؑ کو سوال کرنے سے منع اس لیے کیا تھا کہ نبی احکامِ شریعت کا مکلف ہوتا ہے اور شریعت کے ضابطے کے مطابق جو چیز قابلِ گرفت ہو، اس پرنبی کے لیے سوال کرنا اس کا منصبی فرض اور فطری امر ہے۔ لیکن چونکہ یہ تینوں کام بظاہر شریعت کی نظر میں قابلِ گرفت تھے، اس لیے سیدنا خضرؑ نے ان کی نسبت اپنی طرف کی۔
پس اللہ کی رضا اس میں نہیں کہ کوئی جھوٹ بولے، وہ تو جھوٹوں پر لعنت فرماتا ہے، جھوٹ بندہ خود بولتا ہے، یہ اس کی اپنی شامتِ اعمال ہے، لہٰذا ’’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘‘ کہنا شانِ الوہیت میں بے ادبی ہے، لوگ سوچے سمجھے بغیراس طرح کے کلمات بول دیتے ہیں، انہیںاس سے اجتناب کرنا چاہیے، بارگاہِ الوہیت کے ادب کا تقاضا یہی ہے۔
وزیر اعظم کی بے احتیاطی: وزیر اعظم کی نیت پر ہمیں شبہ نہیں ہے، وہ نیک نیتی سے ریاستِ مدینہ کا نام لیتے ہیں اور بعض اوقات سیرتِ طیبہ کے حوالے دیتے ہیں، لیکن نہ وہ دین کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اور نہ دین کے بارے میں ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ ہم نے پہلے بھی ان کو اخلاص کے ساتھ مشورہ دیا کہ وہ وسیع مطالعے کے بغیر اپنی سیاست کے لیے دینی مقدّسات کے حوالے نہ دیں۔ پیر کے دن انہوں نے ایک خطاب کے دوران رسول اللہ ؐ کے حوالے سے ایک انتہائی نامناسب کلمہ استعمال کیا جس کی کوئی توجیہ کسی بھی درجے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، حالانکہ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اردو زبان میں متبادل الفاظ موجود ہیں، مثلاً: ’’کفار نے آپ ؐ کو شدید اذیت پہنچائی، آپ پر مظالم ڈھائے، آپ کو لہولہان کردیا، وغیرہ‘‘۔ ان کی کابینہ میں پیر نورالحق قادری عالم دین ہیں، شاہ محمود قریشی سجادہ نشین ہیں، علی محمد خان درود شریف پڑھ کر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، اقتدار آنی جانی چیز ہے، ان حضرات کو چاہیے کہ وزیر اعظم کو نجی مجلس میں سمجھائیں کہ وہ مقدّساتِ دین کے بارے میں غیر محتاط کلمات استعمال نہ کریں۔
کلمۂ اہانت میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا، شریعت کا حکم ظاہر پر لگتا ہے اور لوگ بھی زبان پر جاری ہونے والے الفاظ سے مثبت یا منفی تاثر لیتے ہیں، نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ قرآنِ کریم نے نبی کریم ؐ کے بارے میں کوئی ذو معنی کلمہ استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ ؐ کی ذاتِ عالی ہر عیب سے پاک ہے، عام انسان کتنا ہی دانا وبینا کیوں نہ ہو، خطا سے مبرّا نہیں ہے۔ آج کل لوگ اپنے سیاسی قائدین کے بارے میں اندھی عقیدت میں مبتلا ہوچکے ہیں، کوئی اصلاح کی نیت سے گرفت کرے یا مشورہ دے تو وہ بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے۔ مسلمان کو جان لینا چاہیے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم سے وفا کا رشتہ کام آئے گا، یہ قائدین کسی کو بچانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ یہ آپ کے سیاسی رہنما ہیں، دینی پیشوا نہیں ہیں، سیاسی امور میں آپ کو ان سے محبت کرنے اوران کی جائز باتوں کی حمایت کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن دینی اعتبار سے قابلِ گرفت باتوں کی حمایت کرنا اپنی عاقبت کو برباد کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی اندھی عقیدت سے سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔