سندھ میں منتخب بلدیاتی اداروں کا رواں چار سالہ دور ختم ہونے والا ہے۔ چونکہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل فروری 2016 میں مکمل ہوچکے تھے اور یونین کونسلز اور کمیٹیوں نے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ گوگہ فروری میں اس بلدیاتی منتخب دور کی مدت ختم ہورہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے دور کے دوسرے بلدیاتی انتخابات کرواکر نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملک کی جمہوری تاریخ رہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات صرف 2015 میں کرائے گئے۔ اس سے قبل 2001 اور 2005 میں پرویز مشرف کے آمریت کم جمہوریت کے دور میں یہ انتخابات کرائے گئے تھے۔ یہ انتخابات بھی نئے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام کے تحت ہوئے تھے جس کے نتیجے میں کراچی میں نعمت اللہ خاں کی شہری حکومت وجود میں آئی تھی جو 2005 تک رہی۔ یہ ایک مثالی بلدیاتی دور تھا بعدازاں 2005 میں اسی نظام کے تحت ہونے والے انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے مصطفی کمال سٹی ناظم بنے۔ 2012 میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم کو سندھ میں ختم کردیا گیا اور بلدیاتی نظام کے لیے پرانے نظام کے مطابق 2013 میں سندھ اسمبلی میں بلدیاتی قوانین میں تبدیلی کرواکر جو نظام تشکیل دیا گیا اس کے تحت رواں بلدیاتی دور چل رہا ہے۔
کراچی کے لیے بلدیاتی نظام کا یہ دور انتہائی خراب رہا جس کی وجہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور کراچی میں وسیم اختر کی ’’بادشاہی‘‘ ٹائپ حکمرانی ہے۔ وسیم اختر اپنے پورے چار سالہ دور میں انتظامی اور مالی اختیارات کا رونا روتے رہے اور رو رہے ہیں۔ یہ دور ختم ہوگا تو وسیم اختر کا رونا اور شہریوں کو درپیش شکایات کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ وسیم اختر جب میئر بن رہے تھے اس وقت ایم کیو ایم کا بھرم ہی کیا ایم کیو ایم کے ٹوٹنے کا سلسلہ شروع ہو گیاتھا۔ آج وہ ایم کیو ایم ایک خوفناک خواب کی طرح ختم ہوگئی جس کی مارا ماری اور خوف کی وجہ سے کراچی کے شہری عملاً یرغمال تھے۔ عام انتخابات ہو یا بلدیاتی انتخابات ’’ٹھپا لگاؤ‘‘ کے تحت متحدہ جیت جایا کرتی تھی۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں، بانی ایم کیو ایم ماضی کا حصہ بن کر بھارتی حکمرانوں سے شہریت کی بھیک مانگ رہے ہیں اور انڈین حکمران لفٹ نہیں کرا رہے۔ اب کراچی میں عوام کی حکمرانی بحال ہوچکی ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ وہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کو فتح کر لے۔ شاید اسی وجہ سے صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کردی ہیں۔
روزنامہ جسارت میں 16 دسمبر کو شائع کی جانے والی رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے نئے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے، ساتھ ہی صوبے کے بلدیاتی اداروں خصوصاً کراچی میٹروپولیٹن اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے مالی اور انتظامی اختیارات میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تاہم ان مقاصد کے لیے محکمہ، قانون، خزانہ اور بلدیات سے سفارشات طلب کی گئی ہیں۔ خبر میں باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کراچی کے بلدیاتی اداروں کو درپیش مسائل اور اختیارات کے حوالے سے متنازع معاملات کو آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل حل کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے محکمہ بلدیات کو انتخابات کی تیاری کی بھی ہدایت کردی ہے۔ جبکہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور چھ ڈسٹرکٹ مونسپل کارپوریشنوں کو مالی و انتظامی اختیارات کے حوالے سے درپیش شکایات کا بھی جائزہ لے کر انہیں حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی اداروں کو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے مطابق اختیارات دینے پر غور کیا جارہا ہے تاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے منتخب نمائندوں کی شکایات کا ازالہ ہوسکے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات زیادہ سے زیادہ ماہ اگست تک کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت کے یہ فیصلے اور ارادے بھی صرف اس لیے ہی ممکن ہوسکے کہ پیپلز پارٹی کو یہ یقین ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کامیاب ہوکر اپنا میئر منتخب نہیں کراسکے گی۔ یہ یقین دہانی تو مئیر وسیم اختر خود اپنی ’’تاریخی کارکردگی‘‘ سے دلاچکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پیپلز پارٹی کراچی سمیت سندھ کے بلدیاتی اداروں میں میدان مار لے گی؟ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے باوجود وفاق میں حکمرانی کرنے والی تحریک انصاف کے بلدیاتی انتخابات میں نشستیں حاصل کرنے کا امکان ہے۔ تاہم کراچی میں اس بار جماعت اسلامی کے امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ جماعت اسلامی کے سابقہ بلدیاتی سٹی ناظم و اضلاع کے ناظمین نے غیر معمولی کارکردگی دکھا کر شہریوں کے دل جیت لیے تھے۔ ان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور ان کی جماعت بھی یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ آئندہ کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے شہروں میں بھی صرف پاک سر زمین پارٹی کے نامزد کردہ لوگ بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوںگے۔ مگر مصطفی کمال یا ان کے ساتھیوں کے اس طرح کے دعووں کو سنجیدہ نہیں لیا جاسکتا کیونکہ اس طرح کے دعوے تو عام انتخابات کے دوران بھی مصطفی کمال خصوصی طور پر کیا کرتے تھے مگر وہ خود صوبائی اور قومی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہیں لے سکے تھے۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے قبل بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اس نظام کو کس طرح بہتر اور ضرورتوں کے مطابق بناتی ہے۔