بدھ کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جو سانحہ رونما ہوا، اس نے سب کو ہلاکر رکھ دیا، اس کی مذمت میں سب یک زبان ہوئے اور یہ تاثر دیا کہ گویا یہ واقعہ اچانک رونما ہوگیا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قوموں اور ملّتوں میں اخلاقی زوال ایک لمحے میں اچانک رونما نہیں ہوتا، اس کے اسباب ہوتے ہیں، یہ ببول کا وہ درخت ہے، جس کی شجرکاری معاشرہ اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے اور ایسا کرتے وقت وہ انجام کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وقتی سوچ، عارضی مفادات اور منفی جذبات کی تسکین ان کے پیشِ نظر ہوتی ہے، اکثر جوش غالب آجاتا ہے اور ہوش کھودیتے ہیں۔ وہ قومیں جو زندہ وبیدار ہوں اور اخلاق واقدارکا پرچم سربلند رکھتی ہوں، ان میں ہوش ہمیشہ جوش پر غالب رہتا ہے، کسی بھی فیصلے، اِقدام اور پیش رفت سے پہلے وہ عواقب اور انجام پر غور کرتے ہیں، اس لیے انہیں نَدامت وخَجالت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ہمارے ہاں 2007 میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک برپا ہوئی، بظاہر یہ تحریک وکلا نے برپا کی اور اس کی قیادت انہی کے ہاتھوں میں تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف نفرت کا لاوا پک چکا تھا، مگر دبا ہوا تھا، اُسے اچانک ابھرنے کا موقع ملا، مختلف طبقات، عناصر اور سیاسی جماعتوں نے اپنا وزن اس میں ڈال دیا اور الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا نے اسے بلندیوں پر پہنچادیا، اس وقت عدلیہ تحریک کے سرخیل جنابِ اعتزاز احسن نے قوم کو یہ بشارت سنائی:
ریاست ہوگی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
عدل ملے گا ہر انساں کو
ظلم کو جنتا ختم کرے گی
پھر عدلیہ کی آزادی کی بحالی کی معراج تو حاصل ہوگئی، لیکن اس نے قوم کو بے حال کردیا، یہاں تک کہ اعتزاز احسن صاحب کو کہنا پڑا: ’’عدلیہ تحریک نے ہمیں متکبر جج اور متشدد وکلا دیے‘‘۔ وکلا بے مہار ہوگئے، عدالت عظمیٰ نے ازخود یعنی SuoMoto نوٹس لینے کا ریکارڈ قائم کردیا، لیکن وقتاً فوقتاً اور جابجا رونما ہونے والے وکلا کے تشدُّدآمیز مَظاہر سے صَرفِ نظر کیے رکھا، کیونکہ اُس کی آزادی ایک طرح سے وکلا تحریک کی مرہونِ مَنّت تھی۔ بدھ 12دسمبر کو وکلا کی خود سری، قانون شکنی اور بے اعتدالی نے قانون اور اخلاقی اقدار کی ہرحد کو عبور کردیا، ہر علامت کو روند ڈالا اور ہر روایت کو ملیا میٹ کردیا۔ اس کے ردِّعمل میں جو فوری تاثرات سیاسی قائدین، حکومت کے ذمے داران اور مختلف طبقات کی طرف سے آئے تو لگا کہ اہلِ فکر ونظر اچانک کوئی ڈرائونا خواب دیکھ کر بیدار ہوئے ہیں اور آپ بیتی بیان کر رہے ہیں، واقعی یہ ایک ڈرائونا منظر تھا، دوسری جانب محترم ڈاکٹر صاحبان نے ایک عرصے سے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس پر بھی سوالیہ نشان ہے، قابل اجمیری نے کہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار محمد چودھری اور میاں ثاقب نثار نے عدالت عظمیٰ کو دہشت ووحشت کی علامت بنا دیا، سارا نظام اُن کے آگے لرزاں وترساں تھا، ہر صاحبِ اختیار رات کو خواب میں بھی ڈر کر اٹھ جاتا ہوگا کہ کہیں عدالت عظمیٰ سے بلاوا نہ آجائے۔ انہوں نے ہر قابلِ احترام منصب کو بے توقیر کرنے میں اپنی عزت سمجھی اور وہ گھر جسے اپنی عزت اور حقوق کی حفاظت کے لیے لوگ آخری جائے امید سمجھتے ہیں، وہ خوف کی علامت بن گیا، پگڑیاں اچھالی گئیں، عبا تار تار ہوئے، منصب بے توقیر ہوئے اور وہ دہشت قائم ہوئی جس کی تصویر کشی فیض احمد فیض نے بہت پہلے کی تھی:
سب تاج اُچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں، ہم دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوحِ اَزل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں، روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے، جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر، جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
زمین تو دھڑکی اور بجلی بھی کڑکی، لیکن محکوموں کے پائوں تلے نہیں، بلکہ صاحبِ منصبِ جلیلہ کی مسند تلے۔ جنابِ جسٹس ثاقب نثار کے سامنے فلمی ہیرو سلطان راہی بھی طفلِ مکتب لگتا تھا، میڈیا کے ہمراہ حضرت اچانک جیل پہنچ جاتے، کبھی اسپتال پر چھاپا مارتے، کبھی جج کے کمرے میں داخل ہوکر موبائل زور سے پٹخ دیتے، دن میں دوچار مرتبہ کہتے: ’’آرٹیکل باسٹھ ایف ہے نا‘‘۔ ایک خشمگیں للکار سے ڈیم بنادیتے، ایک نگاہِ ناز سے آبادی کنٹرول فرمالیتے، الغرض الہ دین کے چراغ کی افسانوی داستانیں اُن کے آگے بہت معمولی لگتی تھیں۔ الغرض جدھر رخ کرتے، دھرتی دھڑکنے لگتی، بجلی کڑکنے لگتی، تخت الٹ جاتے، تاج اچھل جاتے اور خلقِ خدا نہیں، بس صرف جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کی انا راج کرتی نظر آتی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں: معاذ اللہ! خدائی اختیار کے زعم میں مبتلا اُس شخص کا حال آج کیا ہوگا کہ کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے، ان کے بغیر نظامِ کائنات چل رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: (۱) ’’وہی زندۂ جاوید ہے، سب کو قائم رکھنے والا ہے، (البقرہ:255)‘‘۔ (۲) ’’اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اس کی ذات کے سوا ہرچیز فانی ہے، اُسی کا حکم نافذ ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے، (القصص:88)‘‘۔ (۳) ’’زمین پر جو کوئی بھی ہے (اپنے مقررہ وقت پر) فنا ہونے والا ہے اور عظمت اور بزرگی والے رب کی ذات ہی (فقط) تا ابد باقی رہے گی، (الرحمن:26-27)‘‘۔
انہوں نے للکارا تو سب کو، لیکن ایک جیسے جرم یا الزام کے بارے میں فیصلے جدا جدا آئے، کسی کو نشانِ عبرت بناکر چھوڑا اور کسی کے لیے بس ٹھُس، گویا غبارہ تھا جو پھٹ کر رہ گیا۔ موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے آئے دن الیکشن کمیشن کسی سرکاری منصب پر فائز سیاسی رہنمائوں کو وارننگ دیتا تھا کہ ضمنی انتخاب کے موقع پرآپ فلاں امیدوار کے حلقۂ انتخاب میں کیوں گئے، جلسے سے کیوں خطاب کیا، موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی ایسے نوٹس ملتے رہے ہیں۔ اسی طرح انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد کسی کے حلقۂ انتخاب میں کسی بھی ترقیاتی اسکیم کا اعلان ازروئے قانون ممنوع تھا، لیکن پھر 2018ء کے قومی انتخاب کے موقع پر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شیخ رشید احمد کے کندھے سے کندھا ملائے عالی مرتبت قاضِیُ الْقُضَاۃ ان کے حلقۂ انتخاب میں ایک اسپتال کی اٹھارہ ماہ میں تکمیل کا شاہی فرمان جاری فرمارہے تھے اور تعمیراتی پیش رفت کی باقاعدہ ماہانہ رپورٹ عدالت عظمیٰ کو دینے کے احکام جاری فرمارہے تھے، عدل سرِراہے رسوا ہورہا تھا، لیکن جناب قاضیُ الْقُضاۃ کا شِکُوْہ ودَبدبہ قابلِ دید تھا۔ کوئی معلوم کر کے بتائے ان دنوں عالی مرتبت کہیں مہمند یا بھاشا کے مقام پرکسی غار میں چلّہ کشی تو نہیں فرما رہے کہ جنّات آئیں اور چشمِ زدن میں ڈیم کھڑا کردیں، بندے کو بندگی ہی دائمی عزت دیتی ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
امریکا آج دنیا پر راج کر رہا ہے، آپ نیو یارک میں کسی چوراہے پر کھڑے ہوکر ایک لاکھ امریکیوں سے پوچھیں کہ امریکا کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا نام کیا ہے، تو شاید ہی کسی ایک آدھ بندے کو معلوم ہو، یہی صورتِ حال برطانیہ اور دیگر ممالک کی ہے اور اس کے باوجود وہ ملک کامیابی سے چل رہے ہیں،
مگر ہمارے ہاں ہر ریڑھی اور ٹھیلے والے کو اور کچھ معلوم ہو یا نہ ہو، چیف جسٹس کا نام ضرور معلوم ہوگا اور اب تو چیئرمین نیب کا بھی کہ انہیں بھی میڈیا میں نموداور للکار کا نفسیاتی مرض لاحق ہوگیا ہے، یہ مقولہ کہ ’’جج خود نہیں بولتا، فیصلے بولتے ہیں‘‘۔ دور ازکار ہوگیا ہے، اب ماشاء اللہ جج خود بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں، اللہ اُن کی شان اور رعب ودَبدبہ قائم رکھے، ہمارے میڈیا کی رونقیں انہی چیزوں کے دم سے ہیں، ہماری شان دنیا میں نرالی ہے: ’’اس محفل میں کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔ خدائی اسی کو زیب دیتی ہے، جس کی شان ہے، علامہ اقبال نے سچ کہا ہے:
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتانِ آزری
حبیب جالب نے کہا تھا: ’’بندے کو خدا کیا کہنا‘‘۔ لیکن بندہ خدائی سے کم پر قناعت نہ کرے تو کیا کیجیے، آخر تاریخ نمرود وفرعون کو بھولی تو نہیں ہے، اللہ تعالیٰ فرعونِ موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے: ’’سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے نشانِ عبرت بن جائے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، (یونس:92)‘‘۔ موجودہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے اپنا منصب سنبھالتے وقت جو پیمان باندھا تھاکہ میں اپنے شعبے میں ڈیم بنائوں گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنے پیش رو چیف جسٹس صاحبان جنابِ افتخار محمد چودھری اور جنابِ ثاقب نثار کی قائم کردہ روایات کو کافی حد تک بدلا ہے اور کسی حد تک ٹھیرائو آیا ہے، چند روز قبل انہوں نے یہ بھی کہا: ’’ہم اعلیٰ افسران کو آئے دن ضرورت کے بغیر نہیں بلائیں گے‘‘۔ سو انہوں نے اپنے عدالتی نظام میں نئی روایت ضرور قائم کی ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
اسی طرح ڈاکٹر صاحبان کے ہڑتالی مناظر بھی یہ قوم عرصے سے دیکھ رہی ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ اگر حکومت آپ کی مخالف جماعت کی ہے تو لطف اٹھائیں اور آپ کا اپنا دور آجائے تو شَکویٰ کُناں ہوجائیں، کوئی ہمیں بتائے کہ اس ملک کا کوئی حقیقی والی وارث اور خیر خواہ بھی ہے کہ وہ اقتدار میں ہو یا ایوانِ اقتدار سے باہر، اسے اپنا سمجھے، یہاں تو سارے سیاسی وقانونی فتوے وقتی مصلحتوں کے تابع ر ہیں گے، سو پاکستان کبھی پیپلز پارٹی کا ہوتا ہے، کبھی مسلم لیگ ن کا اور آج پی ٹی آئی کا ہے، کاش ہر دور میں یہ ہم سب کا ہوجائے، ولی دکنی نے کہا تھا:
پہلے جو آپ کہہ کر بلاتے تھے، اب وہ تُو کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں
پہلے تھے میخانہ میں، اب ہیں مسجد میں ولی
عمر کے ساتھ مقامات بدل جاتے ہیں
ساری گفتگو کا مدّعا یہ ہے کہ ہمیں ہر قسم کے گروہی، طبقاتی، پیشہ ورانہ اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک وملت کے مفاد میں دیرپا اور متفقہ پالیسیاں بنانی ہوں گی، جن کی پابندی ہر دور کی حکومت اور حزب اختلاف پر لازم ہو، سیاسی خلافیات کی حدود متعین ہوں اور کوئی بھی ریاستی اور قومی مفادات کی سرخ لکیر عبور نہ کر سکے۔