مفتی محمد وقاص رفیع
شعبیؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عمر بن خطابؓ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میری ایک بیٹی تھی، جسے میں زمانۂ جاہلیت میں ایک دفعہ تو زندہ قبر میں دفن کردیا تھا، لیکن پھر مرنے سے پہلے اسے باہر نکال لیا تھا، پھر اْس نے ہمارے ساتھ اسلام کا زمانہ پایا اور مسلمان ہوگئی، پھر اْس سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا جس پر شرعی سزا لازم آتی ہے، اِس پر اْس نے بڑی چھری سے خود کو ذبح کرنے کی کوشش کی، ہم لوگ موقع پر پہنچ گئے اور اسے بچا لیا، لیکن اْس کے گلے کی کچھ رگیں کٹ گئی تھیں، پھر ہم نے اْس کا علاج کیا اور وہ ٹھیک ہوگئی، اس کے بعد اْس نے توبہ کی اور اْس کی دینی حالت بہت اچھی ہوگئی، اب ایک قوم کے لوگ اس کی شادی کا پیغام دے رہے ہیں، میں اْنہیں اس کی ساری بات بتادوں؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ نے تو اس کا عیب چھپایا تھا ، تم اسے ظاہر کرنا چاہتے ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے کسی کو اس لڑکی کوئی بات بتائی تو میں تمہیں ایسی سزا دوں گا جس سے تمام شہریوں کو عبرت ہوگی، بلکہ اس کی شادی اس طرح کرو جس طرح ایک پاک دامن مسلمان عورت کی کی جاتی ہے۔ شعبیؒ فرماتے ہیں کہ ایک لڑکی سے برا کام ہوگیا، جس کی اسے شرعی سزا مل گئی، پھر اس کی قوم والے ہجرت کرکے آئے اور اْس لڑکی نے توبہ کرلی اور اس کی دینی حالت اچھی ہوگئی ہے، اس لڑکی کی شادی کا پیغام اس کے چچا کے پاس آیا تو اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے؟ اس کی بات بتائے بغیر شادی کردے تو یہ بھی ٹھیک نہیں، امانت داری کے خلاف ہے اور اگر بتادے تو یہ بھی ٹھیک نہیں کہ یہ ستر مسلم (مسلمان کی پردہ پوشی) کے خلاف ہے۔ اس کے چچا نے یہ بات عمر بن خطابؓ کو بتائی تو عمرؓ نے فرمایا کہ (بالکل نہ بتاؤ اور ) اس کی ایسے شادی کرو جیسے تم اپنی نیک بھلی لڑکیوں کی کرتے ہو۔ شعبیؒ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے آکر عمر بن خطابؓ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ اے امیر المومنین! مجھے ایک بچہ ملا اور اْس کے ساتھ ایک مصری سفید کپڑا ملا، جس میں سو دینار تھے، میں نے دونوں کو اْٹھالیا (اور گھر لے آئی) اور اس بچے کے لیے دودھ پلانے والی عورت کا اْجرت پر انتظام کیا، اب میرے پاس چار عورتیں آتی ہیں اور وہ چاروں اسے چومتی ہیں، مجھے پتا نہیں چلتا کہ ان چاروں میں سے کون اس بچے کی ماں ہے؟ عمرؓ نے فرمایا کہ اب جب وہ عورتیں آئیں تو مجھے اطلاع کردینا (وہ عورتیں آئیں تو) اس عورت نے عمرؓ کو اطلاع کردی (عمرؓ اس عورت کے گھر گئے اور) اْن میں سے ایک عورت سے عمرؓ نے کہا تم میں سے کون اس بچے کی ماں ہے؟ اْس عورت نے کہا اللہ کی قسم! آپ نے (معلوم کرنے کا) اچھا انداز اختیار نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کے عیب پر پردہ ڈالا ہے، آپ اْس کی پردہ دری کرنا چاہتے ہیں۔ عمرؓ نے فرمایا تم نے ٹھیک کہا ہے۔ پھر اْس پہلی عورت سے کہا آئندہ جب یہ عورتیں تمہارے پاس آئیں تو ان سے کچھ نہ پوچھنا اور ان کے بچے کے ساتھ اچھا سلوک کرتی رہنا اور پھر عمرؓ واپس تشریف لے گئے۔ (کنز العمال)