تفصیلی فیصلہ آ گیا

268

جنرل پرویزمشرف کے بارے میں خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ جمعرات کو سامنے آ گیا ہے ۔ مختصر فیصلے میں پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی لیکن تفصیلی فیصلے میں پرویز مشرف پر کئی جرائم ثابت ہونے پر انہیں5 بار پھانسی دینے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو25 دن کے اندر اندر پیش کریں ورنہ ان کا مواخذہ کیا جائے گا ۔ عدالت کے تین ججوںمیں سے ایک جناب جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے میں بہت سخت بات کی ہے کہ پرویز مشرف اگر مر بھی جائیں تو ان کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لایا جائے اور اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین دن تک ان کی لاش کو لٹکایا جائے ۔ یہ تین ججوں میں سے ایک جج کی رائے ہے لیکن اس کی وجہ سے پورا فیصلہ ہی بے اثر ہو گیا ہے کیونکہ پاکستان کے آئین اور قانون میں لاش کو پھانسی دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس تبصرے نے ایسا تاثر قائم کیا کہ یہ انتقامی کارروئی ہے اور یہی بات مجرم پرویز مشرف نے کہی ہے کہ ان سے انتقام لیا جا رہا ہے اور اس میں وہ جج بھی شامل ہیں جنہوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ہے ۔پرویز مشرف نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سے جج ہیں اور انہیں کیا فائدہ پہنچایا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ جناب جسٹس وقار سیٹھ کے ذہن میںبرطانیہ کے فوجی افسر کرامو یل کا انجام تھا جس نے بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا لیکن جلد ہی یہ بغاوت فرو ہو گئی ، کرامو یل مارا گیا لیکن برطانوی عدالت کے حکم پر اس کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی ۔ یہ17 ویں صدی کے برطانیہ کی مثال ہے مگر اس کو پسند نہیں کیا گیا ۔ اس کی دوسری انتہا یہ ہے کہ خود پاکستان میں بعض ماہرین قانون پھانسی کی سزا ہی کی مخالفت کر رہے ہیں جب کہ اللہ کا حکم ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے ۔ اس میں معاشرے کی فلاح ہے لیکن سزائے موت کی مخالفت کرنے والے ممالک قاتلوں کی پر ورش کرتے ہیں اور انہیں زندہ رکھنے کے لیے عوام سے وصول کردہ محصول یا ٹیکس ان پر صرف کرتے ہیں ۔ پاکستان میں آئین کی پامالی یا اسے منسوخ کرنے کی سزا موت ہے ۔ لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہوا ۔ اب پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ خصوصی عدالت نے آئین پامال کرنے پر5 بار پھانسی کی سزا کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل تو نہیں ہو سکے گا لیکن عدالت نے ایک نظیر تو قائم کر دی ہے اور مجرم کو سزا نہ ملے تو بھی اس کا جرم تو ثابت ہو گیا ہے ۔اور کیسی بد قسمتی ہے کہ انتہائی بیمار پرویز مشرف کو آخری عمر میں غدار کہلانے کا ’’’شرف‘‘ حاصل ہوا ۔ یہ وہی شخص ہے جس نے طاقت کے بل پر اپنے ہی ملک کو فتح کیا اور مکے دکھاتا رہا ۔ اس کے جرائم کی فہرست طویل ہے اور یہ وہ شخص ہے جس پر6 سال سے مقدمہ چل رہا تھا مگر وہ نہ صرف ملک سے فرار ہو گیا بلکہ اس عرصے میں ایک بار بھی واپس آکر عدالت کا سامنا نہیں کیا۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیر قانون فروغ نسیم نے پرویز مشرف کی وکالت کرتے ہوئے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ وہ واپس آئیں گے ۔ لیکن ایسا ہوا اور نہ اب کوئی امکان ہے کیونکہ ان کے خلاف کئی اورمقدمات انتظار کر رہے ہیں ۔ پرویز مشرف کو فرار کروانے میں اس وقت کے کمانڈر انچیف نے دبائو ڈالا تھا اور وزیر اعظم نواز شریف’’اداروں میںتصادم‘‘ کو ٹالنے کے لیے مجبور ہو گئے ۔ آج پھر عمران خان اداروں میں تصادم کی بات کررہے ہیں کہ یہ ملکی مفاد میں نہیں اور ادارے اپنی حدود میں رہیں ۔ لیکن یہ کن اداروں کی طرف اشارہ ہے جو اپنی حدوں سے باہر نکلے پڑے ہیں؟ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پرویز مشرف کے مقدمے میں مدعی حکومت ہے لیکن وہ خود مجرم کی وکالت کر رہی ہے ۔ سرکار کے نمائندہ اٹارنی جنرل مجرم کے ساتھ کھڑے ہیں اور عدالت کے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ عمران خان کو شاید یاد ہو کہ جب تک وہ اقتدار میں نہیں آئے تھے پرویز مشرف پر آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ چلانے پر اصرار کرتے تھے ۔ لیکن ان کا یو ۔ ٹرن تو اب دنیا میں مشہور ہو چکا ہے ۔ انصاف کی حکومت کہہ رہی ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے گا اور انہیں کام کرنے سے روکا جائے گا ۔ یہ بھی کہا جار ہاہے کہ جسٹس صاحب کا دماغی توازن درست نہیں اور ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ لمبی چوڑی بحث میں اُلجھنا اور اُلجھانا معاملات کو خراب کرتا ہے ۔ اعلیٰ عدالتیں موجود ہیں جہاں فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے اور کی جائے گی ۔ اعلیٰ عدالت میں یہ تماشا تو ہو گا کہ پرویز مشرف کے وکلا اور حکومت کے وکلاء دونوں ایک ہی طرف ہوں گے ۔ فیصلہ آسانی سے ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ پرویز مشرف کی جان چھوٹ جائے ۔ پرویز مشرف کے معتمد شیخ رشید فوج کے بیان کا حوالہ دے کر ڈرا رہے ہیں کہ حالات بگڑ سکتے ہیں ۔