حکمران چاہیے جو صرف گرجے ہی نہیں بلکہ برسے بھی

121

 آج سے ٹھیک انیس سال قبل‘ مسلم لیگ (ج) کے دفتر میں ایک محفل سجی ہوئی تھی، مرحوم اقبال احمد خان‘ حامد ناصر چٹھہ اور ہم کچھ صحافی دوست بیٹھے ہوئے تھے محفل کا موضوع نواز شریف تھے جو عین اسی لمحے اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے خاندان سمیت جدہ جارہے تھے‘ اس محفل میں یہ بات زیر بحث تھی کہ کیا نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا؟ مرحوم اقبال احمد خان‘ حامد ناصر چٹھہ دونوں کی رائے یہ تھی کہ نہیں‘ یہ بحث آج بھی جاری ہے اتفاق ہے کہ دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن بھی منایا گیا ہے مگر عالمی انسانی حقوق کے روز مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہمیشہ کی طرح فراموش کیے گئے ہیں۔ بہر حال مسلم لیگ (ج) کے دفتر میں جاری بحث ملک کی سیاسی اور تذویراتی پوزیشن کے گرد گھومتی رہی۔
انیس سال قبل اس خطہ میں کیا منظر تھا؟ افغانستان میں طالبان حکومت تھی‘ بھارت تازہ تازہ کارگل کی شکست کی آکاس بیل میں لپٹا ہوا تھا‘ پوری دنیا کی نظریں افغانستان پر لگی ہوئی تھیں‘ جہاں بامیان کے بت توڑے جارہے تھے ہر بڑی طاقت اس خطے میں اپنا اثر قائم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کیے بیٹھی تھی۔ امریکا کو نائین الیون کا بہانہ مل گیا اور وہ کابل میں آ دھمکا‘ روس اور چین اس وقت بھی نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں تھے افغانستان میں شکست کے بعد روس نئے تجارتی راستوں کی جانب متوجہ ہوا حال ہی میں سائبریا کے وسیع و عریض علاقے کو روسی صدر پیوٹن نے تعمیر وترقی کے لیے اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ چین چھے بڑے راستوں پر مشتمل بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) پر کام کررہا تھا مگر زمینی حقائق ساز گار نہیں تھے انہیں سازگار بنتے بنتے پندرہ سال کا عرصہ لگا ان راستوں میں پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ شامل ہے اس وقت بعض کی تکمیل ہوچکی اور بعض پر کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ یوریشیا نئے راستے کھول دے گا چین سے یورپی بندرگاہ پر سمندر کے راستے کا فاصلہ 45 دن سے کم ہوکر سولہ روز کا رہ جائے گا یہی نئے تجارتی راستے آج کل ملکوں کے مابین نئے اتحاد ی بلاک بھی بنا رہے ہیں۔
1955 سے 1979 تک ایران، عراق، پاکستان، ترکی اور برطانیہ سے ناٹوکے ایک معاہدے میں یکجا رہے آج صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے پاکستان، ترکی اور ایران مغربی دنیا کی نظر میں دوست نہیں سمجھے جاتے اور ماضی کے دو متحارب ملک روس اور چین کے ساتھ ان تینوں ممالک کا دوستانہ تعلق استوار ہوچکا ہے۔ 1964میں سینٹو کے متوازی آر سی ڈی تنظیم تشکیل دی گئی تھی جس نے ایران، پاکستان اور ترکی کو ایک کردیا تھا ایک بار پھر ایسا ہی ایک اتحاد تشکیل پزیرہے۔ اس نئے اتحاد میں امریکا شامل نہیں بلکہ اس کی جگہ روس لے چکا ہے اقتصادی تعاون تنظیم نے آر سی ڈی کی جگہ لے کر سات نئے ممالک افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغستان، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کا اتحادی بلاک بن چکا ہے، سی پیک نے سمندری راستوں کی صورت حال بھی تبدیل کردی ہے اس نئی شارع ریشم نے کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے ایسے راستے فراہم کردیے ہیں جس کے بعد امریکا کے یہ بیڑے بے کار ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں جاری سی پیک شارع ریشم کے منصوبے کا حصہ ہے، یہ چینی سرحد سے بحیرہ عرب میں پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہوں تک پھیلی ہوئی راہ داری ہے۔ یہ منصوبہ 1950 کی دہائی سے زیر غور تھا اسی مقصد کے تحت 1959میں شنشیانگ کو شمالی پاکستان سے جوڑنے والی قراقرم ہائی وے کی تعمیر کا منصوبہ بنایاگیا۔ قراقرم ہائے وی کی تعمیر کا ابتدائی مرحلہ جاری تھا امریکیوں نے اس سی پیک کو ’’خیالی پلائو‘‘ قرار دیا تھا آج سی پیک ایک حقیقت ہے۔
اس سارے پس منظر کے جائزے کے بعد اگر سوچا جائے تو ہمارا ملک ایک دل چسپ دور سے گزر رہا ہے اور ملک میں تحریک انصاف کی حکومت وزیر اعظم عمران خان سے غلطیاں ہورہی ہیں لیکن امید باندھی جارہی ہے کہ وہ معیشت کو راہ پر لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں انہوں نے غیر ملکی امداد کے استعمال کا جائزہ لینے کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار کا انتخاب کیا جب کہ انہیں مشرف دور میں نائن الیون کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ اور 2005 کے زلزلے کے بعد ملک میں اربوں ڈالر آرہے تھے۔ اس وقت صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی اس کے برعکس صدر مشرف کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے اس بیش قیمت زرمبادلہ کو فریج، کاروں، موبائل وغیرہ میں جھونک دیا تھا اور دعویٰ یہ کیا کہ اس سے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا ان کے دور میں چار فون کمپنیاں پاکستان آئیں ان میں سے دو کو دنیا میں دوسرے اور تیسرے نمبر کی کرپٹ ترین ملٹی نیشنل کمپنیاں قرار دیا جاتا ہے۔ ایک نے رشوت، کرپشن اور منی لانڈرنگ وغیرہ کے لیے امریکا میں 95کروڑ ڈالر اور دوسری نے 60کروڑ ڈالر ادا کیے۔ لیکن ہمارا ’’آزاد میڈیا‘‘ محض اشتہارات کی وجہ سے فرماں بردار بنا ہوا ہے اس خطہ کی تجارتی مفادات کی کہانی سمیٹے ہوئے ہمیں کشمیر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ بھارت اپنے فیصلوں سے واپسی اختیار کرے اور پاکستان بھی اپنے مفاد اسی میں ہے رائے شماری ہونی چاہیے یہ منزل حاصل کرنے کے لیے ہمیں اچھا حکمران چاہیے جو صرف گرجے ہی نہیں بلکہ برسے بھی۔