ایک شخص کتا لیے جارہا تھا۔ کسی نے روکا اور کہا ’’یہ کتا مجھے گھٹیا نسل کا لگتا ہے‘‘۔ کتے والے نے جواب دیا ’’نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ یہ ایک اعلیٰ نسل کا کتا ہے‘‘۔ واقف کار نے کہا ’’اے ڈوگ از نون بائی دی کمپنی ہی کیپس۔ کتا اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ یہ جملہ تو خیر شستہ طنز کی مثال ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی صحبت اور دوستوں سے جانا جاتا ہے۔ وکیل اور ڈاکٹر سماج کے وہ طبقات ہیں جن سے تعلق باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔ کیا لاہور کے حادثے کے بعد بھی۔؟ لاہور کے امراض قلب کے اسپتال میں وکلا اور ڈاکٹروںکے مابین جو کچھ ہوا وہ بہت رنج دینے والا ہے۔ وہ غارت گر وہ وحشی جو اسپتال میں توڑ پھوڑ کررہے تھے۔ جنہوں نے اسپتال کو میدان جنگ بنادیا ان کے بارے میں کیا کہا جائے۔ کیا لکھا جائے۔ نفرتوں کے خلاف نفرتیں۔ دعووں کے خلاف دعوے۔ حد سے تجاوز کرنے والے۔ فساد برپا کرنے والے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کیا تمام وکیل ایسے ہی ہوتے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہر طبقے میں اچھے برے ہوتے ہیں۔ ہمارے دوستوں میں ناصر رضوان ایڈووکیٹ جیسے نفیس اور شائستہ اطوار شامل ہیں۔ وہ جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے۔
اس حادثے نے ریاست، حکومت اور اس کے اداروں کی کمزوری کو بری طرح آشکار کیا ہے۔ کمزور ریاست اور حکومت میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ جارح کا ہاتھ روک سکے۔ یہ کمزوری پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی۔ کراچی میں کئی عشروں ایم کیو ایم کے جتھوں کے آگے ریاست کا وجود معطل نظر آیا۔ کئی برسوں سے اسلام آباد میں ریاست بے بس نظرآتی ہے۔ تحریک لبیک نے اسلام آباد کو بلاک کیا تو فوج کے نمائندے ان سے مذاکرات کرتے اور رقوم تقسیم کرتے نظر آئے۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران شیخ رشید ’’مارو، آگ لگائو اور گھیرائو کرو‘‘۔ کے نعرے لگاتے نظر آئے۔ پی ٹی وی پر حملہ ہوا، عمران خان ٹیلی فون پر عارف علوی سے گالی بکتے ہوئے کہتے سنائی دیتے ہیں ’’بہت اچھا ہوا پی ٹی وی پر حملہ ہوا، یہ اسی طرح جائیں گے‘‘۔ پارلیمنٹ پر حملے ہوئے، عدالت عظمیٰ کی تذ لیل کی گئی۔ اس دوران ریاست کہاں تھی، اس کے ادارے کیا کررہے تھے۔ ریاست نے کس کا ہاتھ روکا؟
لاہور کا واقعہ کسی دور افتادہ جگہ پیش نہیں آیا۔ یہ حادثہ گورنر اور چیف منسٹر ہائوس کے بالکل نزدیک پیش آیا۔ ایک دن پہلے آثار ظا ہر تھے۔ سب کو خبر ہے احتجاج کے مہذب قرینوں سے ہم نا آشنا ہیں۔ ہمارے یہاں احتجاج پر تشدد ہوتا ہے۔ وہ
انٹیلی جنس ایجنسیاں جن کی تعریف کا کوئی موقع ہم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے وہ کہاں تھیں۔ وہ انتظامی مشینری جس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے آئے دن تقرر اور تبادلوں کا کھیل جاری رہتا ہے وہ کس دیس جا بسی تھی۔ آئی جی صاحب کے بارے میں تواتر سے کہا جارہا تھا بڑے سخت گیر ہیں، زبردست انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں، ڈی آئی جی اور ایس پی صاحبان بھی یقینا گئی گزری صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوں گے اس دن ساری پولیس اور انتظامیہ کو کیوں سانپ سونگھ گیا۔ کیوں پوری پنجاب حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ کسی غریب کی جھونپڑی گرانی ہو، پتھارا توڑنا ہو، بے روزگار کرنا ہو، تجاوزات کا معاملہ ہو اس وقت تو اعلیٰ کارکردگی زوروں پر نظر آتی ہے۔ قانون کی بالادستی کا سب کو دورہ پڑا ہوتا ہے۔ غریبوں پر چڑھائی میں سبقت لے جانے میں سب پیش پیش ہوتے ہیں۔ وکلا کے جتھوں اور بد معاشی کے آگے سب بے بس، عضو معطل اور موم کی ناک بنے ہوئے تھے۔ کیوں۔
آئے روز ملک میں کہیں نہ کہیں جلوس نکلتے رہتے ہیں۔ بڑی شاہراہوں کا انتخاب کرکے پورے شہر کو پریشان اور معطل کردیا جاتا ہے۔ بیمار بچے بوڑھے، خواتین سب متاثر ہوتے ہیں۔ کبھی یہ جلوس مذہبی ہوتے ہیں، کبھی سیاسی اور انتخابی۔ ان جلوسوں کے دوران ریاست بہت کمزور، بے بس اور شرکاء کو روکنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے۔ ریاست کسی کا ہاتھ پکڑ لے، ریاست میں یہ طاقت نظر نہیں آتی۔ نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لاہور واقعے میں کوئی مرا ہے، کسی کو شدید اذیت اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ عوام ہیں۔ کوئی موت کی اندھی گھاٹی میں دھکیل دیا گیا ہے تو وہ عام آدمی ہے۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جسے کوئی انصاف دینے پر تیار نہیں۔ منصفوں کا اقبال بلند ہو جنہوں نے عدل کیا اور کیا خوب کیا کہ وکلا ڈاکٹروں کے پاس گل دستے لے کر جائیں، پھولوں کا تبادلہ کریں۔ اس حادثے میں جو عوام مارے گئے وہ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چا ہیں۔
اہل سیاست کی سیاست اور تحریکوں کا ایندھن عام آدمی ہے۔ وہ کسی نہ کسی عنوان کارکنوں کو احتجاج پر لگائے رکھتے ہیں۔ بلند بانگ دعووں سے کارکنوں کے جذبات کو اس درجے انگیز کردیا جاتا ہے کہ وہ سردی اور بارش میں بھی جلسہ گاہ چھوڑنے اور اپنے قائد سے بے وفائی کا تصور نہیں کرسکتے۔ یہ قائدین کب کیا کریں گے۔ کب مقتدر طاقتوں سے صلح کرلیں گے، کب اپنی سیاست اور فیصلوں کو ایک سو اسی ڈگری یوٹرن دے دیں گے کارکنوں کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔
ہمارے سماج کی جو صورت بن گئی ہے وہ مرنے مارنے کی صورت ہے۔ ہر طبقے کو یقین ہے بنا زبردستی، بنا طاقت اسے کچھ نہیں ملے گا۔ ہر طبقہ اضطراب میں زندہ ہے۔ ہر فرد، ہر جماعت اور ہر طبقہ طاقت کے ایوانوں تک رسائی چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قانون کے پرخچے اڑانے پڑیں، لاشوں پر سے گزرنا پڑے، سب گوارا، سب پزیرا۔ طاقت کے ایوانوں تک رسائی ہوگئی تو پھر کسی عدالت، کسی منصف میں ہمت نہیں سزا دے سکے، کسی ادارے میں جرات نہیں کہ انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کرسکے۔ جیلوں پر حملے کرکے بندے چھڑوائے گئے، رائو انوار نے چارسو سے زائد بندے پھڑکا دیے، عذیر بلوچ نے نجانے کتنے لوگوں کو قتل کردیا، ایم کیو ایم نے پورے شہر کو آگ اور خون میں نہلادیا، بلدیہ فیکٹری کی آگ میں تین سو سے زائد غریب جلا کر مار دیے گئے، کوئی پکڑا گیا؟، کسی کو سزا ہوئی؟۔ یہ سیاست دان جنہیں ملک سونپ دیا گیا ہے ٹی وی پر مباحثے کرتے ہیں تو لگتا ہے مہذب انداز میں نقطہ نظر پیش کرنے کا تصور بھی ان کے حا شیہ خیال میں نہیں۔ ان غیر مہذب حکمرانوں نے پورے ملک پورے سماج کو غیر مہذب، غیر شائستہ اور فکری دیوالیے پن میں مبتلا کردیا ہے۔
ہر مسئلے کا الزام دوسرے پرتھو پنا، کسی نہ کسی کے خلاف احتجاج کرنا دہائیوں کی محنت اور جدوجہد کے بعد ہم اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوں، ناقابل تردید ویڈیوز اور ثبوت موجود ہوں، اس کے باوجود کسی کو کچھ تسلیم نہیں کرنا۔ کسی کو سزا نہیں ہونی۔ ہر طبقے کے نمائندوں اور ان کے قائدین کو الزام مخالفین پر لگانا ہے۔ اس سلوک سے کسی کی زندگی برباد ہورہی ہے، احتجاجوں اور توڑ پھوڑ کی زد پر اگر کوئی ہے تو وہ عام آدمی ہے جس کے لیے صداقتیں بھی اوہام ہیں۔ جس کے لیے ہر حکومت، ہر جماعت، ہر گروہ خسارے کا سودا ہے۔ منصفوں کے انصاف میں، وکلا کی وکالت میں، ڈاکٹروں کی مسیحائی میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہر وقت چاروں طرف سے اسے کوئی ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ مارنے کے لیے۔ وہ بازاروں میں ہو، شاہراہوں میں ہو، شفا خانوں میں ہے اسے کہیں امان نہیں۔ وہ کہاں جائے، کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔