جغرافیے سے زیادہ تہذیب کی بالادستی؟

200

 بھارت عالمی طاقت بننے کی راہ پر چل پڑا ہے مگر وہ اس سفر کا آغاز ٹھیٹھ شناخت کے ساتھ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس مجموعی سفر پر ہندو کی تہذیبی بالادستی اور اکثریت کی چھاپ گہری رہے۔ انتہا پسندوں کی نفسیات میں یہ خیال گندھ کر رہ گیا ہے کہ مہا بھارت کے سفر میں اب مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کو باعزت شراکت دار کے بجائے زیردست طبقہ کے طور پر ساتھ ضروری ہے تاکہ دنیا کو یہ اندازہ ہو کہ طاقت اور بالادستی کے سفر میں کسی اقلیت کا احسان مند نہ ہونا پڑے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ لوک سبھا میں بھارتی شہریت کا ترمیمی بل پیش کررہے تھے تو ان کی ایک ایک ادا اور لفظ سے یہ تاثر جھلکتا تھا کہ بھارت اب اپنی روایتی کانگریس کی عطا کردہ سیکولر شناخت کی وقت گزیدہ کینچلی اتار کر ہندو راشٹریہ کے خول میں بند ہو رہا ہے۔ یہ بل بتارہا تھا کہ بھارت کی اس نئی شناخت کا قتیل مسلمان ہی بنتے جا رہے ہیں۔ اس بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش سے جانے والے ہندو، بودھ، سکھ، جین، عیسائی اور پارسی بھارتی شہریت کے حقدار ہوں گے۔ بل میں بھارت کے تین پڑوسی ملکوں سے جانے والے کی شہریت اصل معاملہ نہیں بلکہ فہرست سے مسلمانوں کا نام خارج ہونا ہے۔ یہ ایک ذہنیت کی عکاس ہے اور اس خورد بین میں مستقبل کے بھارت کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ہندو ذہن صاف طور سے بتا رہا ہے کہ مستقبل کے بھارت میں مسلمانوں کا مقام اور مرتبہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوگا۔ کانگریس کے ایک لیڈر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا اس میں ایک مخصوص کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا ہے۔ امیت شاہ نے بل کی حمایت میں بہت سے دلائل دیے جن میں ایک دلیل یہ تھی کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش تینوں ملکوں کا سرکاری مذہب اسلام ہے اس لیے ان ملکوں میں اقلیتیں ظلم کا شکار ہیں۔ اس بل سے ارونا چل پردیش، ناگالینڈ اور میزورام کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ آسام، مگھیالہ اور تری پورہ کی ریاستوں کے قبائلی علاقوں پر بھی اس بل کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس بل سے پانچ مذاہب کے پیروکاروں کو فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی دیوار سے لگے ہوئے مسلمانوں کو مزید پرے دھکیلنا اور سماج میں کچھ اور اجنبی بنانا ہے۔
بھارتیا جنتا پارٹی کی قیادت میں بھارت ہندو راشٹریہ بننے کی سمت پر لگا کر اُڑ نے لگا ہے۔ جوں جوں بھارت اس منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھارہا ہے اسی رفتار سے برصغیر کے بارے میں قائد اعظم کی سوچ کا سچ اور دور اندیشی پر مبنی جبکہ گاندھی کی سوچ کاسطحی اور کیمو فلاج پر مبنی ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ قائد اعظم حالات وواقعات کے مشاہدے اور تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں اور ان کی ثقافت، مزاج رہن سہن اور سوچ وفکر کے زاویے قطعی الگ ہیں۔ مسلمانوں اور انگریزوں
کے اقتدار نے ان دونوں کو وقتی طور پر جوڑے تو رکھا ہے مگر غیر ملکی اقتدار کا ڈھکن ہٹتے ہی یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے خلاف رزم آرا ہوجائیں گی۔ اس کے برعکس گاندھی کی فلاسفی یہ تھی کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں۔ ہندوستان میں بسنے والے تمام لوگ بلا تفریق مذہب اور زبان ونسل ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں۔ یہ دونوں ماضی میں بھی اکٹھے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ایک طرف گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس ان خیالات کا اظہار کرتے تھے تو دوسری طرف ان کا مجموعی رویہ اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ ان کی پالیسیوں میں مرکزیت ہندو مفادکو حاصل ہے۔ ان رویوں نے ہندو مسلم اتحاد کے داعی محمد علی جناح کو پاکستان کے نام سے الگ وطن کے قیام کی جدوجہد پر آمادہ کیا تھا۔ اس درمیان مسلمانوں کے بعض ایسے لیڈر بھی شامل تھے جو کانگریس کے ایک قومی نظریے کی وکالت کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے نام سے الگ وطن قائم کرنے کے بجائے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان پر ہی گزارا کرنا چاہیے۔ متحدہ ہندوستان کے حامی ان مسلمان راہنمائوں میں مولانا ابولکلام آزاد نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک بڑا طبقہ مولانا آزاد کی سوچ وفکر حقیقت سے زیادہ قریب تر قرار دیتا رہا اور اس کے لیے پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات اور حادثات کو مثال بناکر پیش کرتا رہا مگر بہتر برس بعد بھارت کی جو شبیہہ نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ وہ قائداعظم کی فکر وفلسفے کو صحیح ثابت کر رہی ہے۔ بھارت بہت تیزی سے ایک ایسی ہندو ریاست بننے کی راہ پر چل پڑا ہے، جس میں دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے لیے عزت انا اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا امکان روز بروز معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تاثر اب صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ خود صاحب الرائے اور متوازن مزاج ہندو دانشور بھی یہ بات تسلیم کرنے لگے ہیں۔ اسی لیے بل کی منظوری پر کانگریسی لیڈر ششی تھرور نے کہا تھا کہ یہ گاندھی کی فلاسفی پر جناح کی فلاسفی کی فتح ہے گویا آج کے بھارت کے حکمران ہندوستان کو عملی شکل میں ہندواستھان یعنی ہندوئوں کے رہنے کی جگہ تسلیم کر رہے ہیں۔ بھارت کی ہندو شناخت ایک تنگ دائرے میں سمٹنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کے معاملات تو تاریخ کا جھگڑا ہیں اب بنگلا دیش اور افغانستان جیسے اچھے مسلمان ملکوں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ ہونے لگی ہے۔ احمد شاہ ابدالی کے کردارکو بالی ووڈ کی فلم میں قبیح بناکر پیش کرنا اور بنگلا دیش اور افغانستان کو اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ قراردینا اور ان کو مذہبی ریاستیں قرار دینا ان ملکوں کو سوچنے کے نئے انداز دے گیا ہے۔ بھارت کے رویے میں یہ ایک حیران کن تضاد ہے۔ ایک طرف وہ مہا بھارت کے نام پر ایک عالمی طاقت بننے کا خواہش مند ہے تو دوسری طرف وہ اپنی شناخت کو کلی طور پر مقامی بلکہ مذہبی بنا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف بھارت کی صورت ایک جغرافیے کی ہی نہیں ہندومت کی صورت میں ایک تہذیب کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔