ہندوستان اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ننگا ہو کر سامنے آگیا ہے۔ گاندھی اور نہرو نے دنیا کو دھوکا دینے کے لیے سیکولرازم کا جو نیکر اور بنیان زیب تن کیا ہوا تھا مودی نے وہ بھی اُتار کر پھینک دیا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مودی سرکار نے آسام کے 20 لاکھ مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کردیا تھا۔ اب بھارت نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان، بنگلادیش، افغانستان یا کسی اور ملک سے آنے والے ہندوئوں، سکھوں، بدھسٹوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو تو ہندوستان کی شہریت دے گا مگر کسی مسلمان کو ہرگز بھی شہریت نہیں دے گا۔ مودی نے اس سلسلے میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے ایک بل بھی منظور کرالیا ہے۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے بل کی منظوری کو افسوس ناک قرار ددیتے ہوئے کہا ہے کہ بل کی منظوری گاندھی پر محمد علی جناح کی فتح ہے۔ اس لیے کہ اس بل سے دو قومی نظریہ ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا ہے۔ مودی نے بل کی منظوری کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد پر ہندوئوں کے غاصبانہ قبضے کو جائز قرار دیا ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ مودی کے دامن سے بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا داغ بھی دھو دیا گیا ہے۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر ایک ہزار سال میں ایک بھی ایسا ہندوکش فساد نہیں ہوا جس کی پشت پر حکومت، ریاست یا مسلمانوں کا کوئی منظم گروہ کھڑا ہوا ہو۔ لیکن بھارت کی ہندو قیادت نے صرف 72 سال میں ہندوستان کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات کرادیے ہیں۔ پہلا مسلم کش فساد قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوا اس فساد میں دس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں کی عظیم اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں 80 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین اغوا ہوئیں۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی اور انہوں نے ایک ہزار سال میں ایک بار بھی ہندوئوں کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی، مگر ہندو قیادت نے صرف 72 سال میں بھارت کے مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے اتنا کمزور کردیا ہے کہ ہر معاشی تناظر میں بھارت کے مسلمانوں کو بھارت کے ’’نئے شودر‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کی چالیس فی صد آبادی ایسی ہے جس کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ بھارت کے 25 سے 30 فی صد مسلمان ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی 50 اور 100 روپے کے درمیان ہے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں ہندو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتے رہے اور وہ مسلم سلطنت کے ہر شعبے میں موجود تھے۔ وہ وزیر تھے، مشیر تھے، جرنیل تھے، سپاہی تھے، مگر بھارت کی ہندو قیادت نے صرف 72 سال میں مسلمانوں کو ریاست کے ہر شعبے سے نکال باہر کیا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے مسلمان بھارت کی پولیس میں دس سے پندرہ فی صد تھے مگر اب ایک فی صد بھی نہیں ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بھارت کی ریلوے میں مسلمان 12 سے 15 فی صد تھے مگر اب ایک فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ بھارت کے لاکھوں نوجوان بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی ہیں مگر انہیں روزگار یا نوکری نہیں ملتی۔ چناں چہ آپ کو ہندوستان میں ایم اے پنواڑی اور ایم اے دکاندار مل جائیں گے۔ بھارتی ریاست پروپیگنڈے کے لیے سہی مسلمانوں کو کچھ نہ کچھ سرکاری ملازمت دے دیتی ہے مگر نجی شعبے میں مسلمانوں کو تقریباً مکمل بائیکاٹ کا سامنا ہے۔
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر کبھی ہندوئوں کے مذہب اور ان کے ’’Personal Law‘‘ میں مداخلت نہ کی۔ انگریز صرف ڈیڑھ سو سال بھارت پر حکمران رہے اور انہوں نے ہندوئوں کی ہر چیز بدل ڈالی۔ انہوں نے ہندوئوں کا قانون بدل دیا، انہوں نے ستی کی رسم پر پابندی لگادی، انہوں نے ’’کورٹ میرج‘‘ کا آغاز کیا اور ہندوئوں کو ’’طلاق‘‘ کا عادی بنایا، حالاں کہ ہندو ازم میں طلاق اور خلع کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ اب بھارت کی باگ ڈور ہندوئوں کے ہاتھ میں آئی ہے تو ہندو ریاست نے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے تین طلاقوں کو خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔ ہندو ریاست مدارس کا ’’گھیرائو‘‘ کررہی ہے، بھارت میں ڈاڑھی رکھنا اور پردہ کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں مودی کررہا ہے جو ’’انتہا پسند ہندو‘‘ ہے۔ یہ کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان مودی اور امیت شاہ نے نہیں گاندھی اور نہرو نے بنوایا۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان مودی نے نہیں اندرا گاندھی نے دولخت کیا۔ لوگوں کو یاد نہیں کہ بابری مسجد بی جے پی کے دور حکومت میں نہیں کانگریس کے دورِ حکومت میں شہید کی گئی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’گھر واپسی‘‘ مہم کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانے کا سلسلہ بی جے پی نے شروع کیا حالاں کہ ہم نے مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر پڑھی ہے، یہ تقریر مولانا نے 1930ء میں کی تھی اور اس تقریر میں مولانا گاندھی جی سے کہہ رہے تھے کہ آپ شدھی کی اس تحریک کی مذمت کیوں نہیں کرتے جس کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام، بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے لیے بھارت کی تمام ہندو جماعتیں بی جے پی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک بی جے پی نمبر ایک ہے۔ کچھ جماعتیں بی جے پی نمبر دو ہیں اور کچھ ہندو پارٹیاں بی جے پی نمبر تین ہیں۔
پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ مودی اور بی جے پی ہندوستان میں ہندو ازم کا ’’احیا‘‘ کررہے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی ہندوستان میں صرف اسلام بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کا احیا کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی ہندو ازم کا احیا ممکن ہی نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ’’حقیقی ہندوازم‘ اور ’’مقبول عوام ہندو ازم‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حقیقی ہندو ازم کہتا ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کی مورتی نہیں بنائی جاسکتی۔ مگر ’’مقبول عوام‘‘ ہندو ازم ہزاروں سال سے ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر ہزاروں خدائوں کو پوج رہا ہے۔ چناں چہ حقیقی ہندو ازم کا احیا ہوگا تو بھارت میں ’’مورتی پوجا‘‘ ختم ہوجائے گی۔ حقیقی ہندوازم کہتا ہے کہ ہندوازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں ’’روحانی‘‘ ہے ’’نسلی‘‘ نہیں مگر مقبول عوام ہندوازم نے ذات پات کے نظام کو ’’نسلی‘‘ بنایا ہوا ہے۔ چناں چہ حقیقی ہندو ازم کا احیا ہوگا تو ہندوستان میں ذات پات کے نظام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ حقیقی ہندو ازم کہتا ہے کہ شری رام کا ’’اسوئہ حسنہ‘‘ ہندوئوں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے مگر مودی اور تمام ہندو رہنما ’’رام‘‘ کے بجائے ’’راون‘‘ کو ’’کالی‘‘ کررہے ہیں اور راون ہندو ازم کی تاریخ کا ہیرو نہیں ولن ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں حقیقی ہندو ازم کا احیا ہوگیا تو مودی ہندوستان کا ہیرو نہیں ولن قرار پائے گا۔ ہندو ازم کے احیا کی بات اس لیے بھی دھوکا ہے کہ ہندو سماج نے جدیدیت کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ تقریروں کی بات اور ہے مگر عملاً ہندوستان کا ’’نمونہ عمل‘‘ ہندو ازم نہیں ’’جدید مغرب‘‘ ہے۔ اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کے حالیہ دورے کے موقع پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان اور امریکا کو ایک دوسرے کا ’’اتحادی‘‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ہماری ’’اقدار ‘‘ ایک جیسی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا وہ خیالی پلائو نہیں تھا۔ ہندوستان الف سے بے تک خود کو مغرب کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہندوستان کی فلمیں، ان کی کہانیاں اور ان کی موسیقی ہے۔ اگر ہندوستان میں ہندو ازم کا احیا ہورہا ہوتا تو بھارت کسی اور طرح کی فلمیں بنا رہا ہوتا۔ بھارت میں فلموں کی اہمیت یہ ہے کہ فلمیں ہندوستانیوں کا ’’نشہ‘‘ ہیں۔ فلمیں ہندوستانیوں کا ’’تشخص ہیں۔ فلمیں ہندوستانیوں کا ’’خواب‘‘ ہیں۔ فلمیں ہندوستانیوں کا ’’اتحاد‘‘ ہیں۔ چناں چہ ہندوستانی فلمیں ہندوستانیوں کی ’’روح‘‘ کو جس طرح بیان کرتی ہیں شاید ہی کوئی چیز اس طرح بیان کرتی ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک زمانہ تک ہندو معاشرے کی پاکستان سے نفرت ایک حد میں تھی چناں چہ ہندوستان میں پاکستان دشمن فلمیں نہیں بنتی تھیں مگر گزشتہ 20 برس کے دوران ہندوستان کے سماج میں اسلام اور مسلم دشمنی کے ساتھ ساتھ پاکستان سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا۔ چناں چہ بھارت نے گزشتہ 20 سال میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ ’’اینٹی پاکستان‘‘ فلمیں بنا ڈالی ہیں۔ان فلموں میں پاکستان سے نفرت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک فلم میں فلم کا ہیرو یہ کہتا نظر آتا ہے کہ پاکستان اتنا سا ہے کہ اگر بھارتی اس کی طرف منہ کرکے پیشاب کردیں تو پاکستان میں سیلاب آجائے۔ کہنے کو مودی اور بی جے پی کے رہنما بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے اپنے ’’احساس برتری‘‘ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں مگر یہ احساسِ برتری دراصل ان کے ’’احساسِ کمتری‘‘ سے نمودار ہورہا ہے۔ آخر وہ تہذیب، وہ ملک اور وہ قوم ’’برتر‘‘ کیسے ہوسکتی ہے جو گزشتہ 12 سو سال سے غلام چلی آرہی ہو۔ ہندو ’’جی دار‘‘ ہوتے تو مسلمان ایک ہزار سال اور انگریز دو سو سال تک ہندوستان پر حکومت تھوڑی کرسکتے تھے۔ چناں چہ مودی یا بی جے پی کا کوئی رہنما جب بھی اسلام، مسلمانوں یا پاکستان کی توہین کرے اس سے کہہ دینا چاہیے کہ ہمیں آپ کا مرض معلوم ہے۔ آپ احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔