سید سعادت اللہ حسینی
امیر جماعت اسلامی، ہند
مسلمانوں کا مقصد ونصب العین کیا ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی تعلیمات اس قدر واضح ہیں کہ اس میں کسی دو رائے کی گنجائش نہیں ہے۔ تحریک اسلامی نے اقامت دین کو یعنی مکمل دین کے قیام کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا حقیقی اور مکمل نصب العین ہے۔ امت کے بعض طبقات اس اصطلاح اور اس کی تفصیلات کے بارے میں مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں کم از کم اس بات میں نہ کوئی اختلاف رائے ہے نہ اس کی کوئی گنجائش ہے کہ مسلمانوں کی اصل حیثیت داعی الی اللہ کی ہے اور اس حیثیت میں ان کا اصل کام اور وژن، اسلام کی دعوت ہے۔ اس بات کی درج ذیل تفصیلات پر بھی بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
1۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا۔ مسلمان اس ملک میں اسلام کے داعی ہیں۔ انہیں ملک کی آبادی کو اسلام کے پیغام سے متعارف کرانا ہے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینا ہے۔
2۔ اپنے معاشرے کو مثالی اسلامی معاشرہ بنانا۔ انہیں اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح و تربیت پر اس طرح توجہ دینی ہے کہ وہ ایک مثالی اسلامی سوسائٹی بن جائیں اور ان کا اجتماعی و انفرادی کردار اور رویہ اسلام کی عملی شہادت کا ذریعہ بنے۔
3۔ سماجی طاقت پیدا کرنا۔ انہیں تعلیمی، سماجی اور معاشی لحاظ سے اوپر اٹھنا ہے تاکہ ان کی کم زوری دور ہو اور وہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آسکیں۔
4۔ انسانوں کی بے لوث خدمت اور ان کے دل جیتنا۔ انہیں انسانوں کی بے لوث خدمت کرنی ہے، اپنے اجتماعی رویے سے اسلام کے نظام رحمت ہونے کی شہادت دینی ہے۔ عدل و قسط کا علم بردار بننا ہے۔ کم زوروں اور مجبوروں کا سہارا بننا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی شناخت انسانیت کے سچے خیر خواہ کی حیثیت سے قائم ہوجائے۔
ان امور کے سلسلے میں دلائل اور قرآن و حدیث کے تفصیلی حوالوں کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ تقریباً متفق علیہ باتیں ہیں۔ تمام ہی مکاتب اور مسالک کے اہل علم کی تقریروں و تحریروں میں ان باتوں کی مسلسل تکرار ہوتی رہی ہے، اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ یہ امور، مسلمانان ہند کے اصل نصب العین کی حیثیت آج تک بھی اختیار نہیں کرپائے ہیں۔ وعظوں اور تقریروں میں خیرامت اور دعوت دین کی مسلسل تکرار کے باوجود، یہ ہمارا ایسا اجتماعی نصب العین نہیں بن سکا، جس پر امت کے سواد اعظم کی نظریں یکسوئی کے ساتھ مرکوز ہوجائیں۔
آزادی کے بعد ہماری اجتماعی کوششیں زیادہ تر جان و مال کے تحفظ اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں دفاع پر مرکوز رہیں۔ مسلم سیاست نے بھی انہی باتوں کو اپنا محور و مرکز بنایا جس کے نتیجے میںمدافعانہ ذہن پروان چڑھنے لگا۔ مدافعت اور رد عمل پر مبنی ذہن کبھی تعمیر و ترقی کے طاقتور محرکات فراہم نہیں کرسکتا۔ اس کے نتیجے میں ہم ہمیشہ حال کی الجھنوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتے ہیں اور مستقبل تک ہماری نظریں نہیں اٹھ پاتیں۔ راستے کی رکاوٹوں میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ منزل نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ ہم رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں اور کسی اقدامی اور ایجابی ایجنڈے پر صبر کے ساتھ طویل المیعاد جدوجہد ممکن نہیں رہ جاتی۔ ہمارا ایجنڈا، ہم خود نہیں بلکہ ہمارے دشمن سیٹ کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نعروں کے مقابلے میں جوابی نعروں، ان کے پینتروں اور ہتھکنڈوں کے رد عمل میںدفاعی اقدمات اور ان کے بچھائے ہوئے جالوں سے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی کوششوں میں ہماری ساری اجتماعی توانائیاں صرف ہونے لگتی ہیں۔ مایوسی، خوف و ہراس، انفعالیت اور بے بسی اس دفاعی نفسیات کی لازمی خصوصیات ہیں۔ نگاہیں منزل پر نہ ہوں تو راستے کی ہر چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ، بڑا پہاڑ محسوس ہونے لگتی ہے اور اعصاب پر اس طرح سوار ہوجاتی ہے کہ بس اْس کا ازالہ ہی زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔ چنانچہ کبھی کوئی این آر سی کا شوشہ چھوڑتا ہے اور اونچے دانش وروں اور قائدین سے لے کر سوشل میڈیا پر مصروف طالب علم تک، ہر ایک کئی مہینوں کے لیے مصروف ہوجاتا ہے۔ کوئی لنچنگ کے واقعات پر ماتم و سینہ کوبی اور لعنت و ملامت کو ملت کی خدمت سمجھ بیٹھا ہے تو کسی کے نزدیک کوئی اور مسئلہ امت مسلمہ کا واحد ایجنڈا ہے۔ ہمارے ذمے دار لوگوں کی تقریریں ہوں یا دانش وروں کی تحریریں، ہماری صحافت ہو یا سوشل میڈیا پر تحریروں کا سیلاب، ہر جگہ یہی منظرسامنے آتا ہے۔ کہیں بھی کسی لانگ ٹرم ہدف اور حتمی وژن کا ذکر نہیں ملتا۔ یہ الجھنیں اس بات کی علامت ہیں کہ اپنے اصل مقصد و نصب العین کے بارے میں امت کا تصور بہت دھندلا گیا ہے۔ اس تبصرے سے مذکورہ مسائل کی اہمیت کا انکار مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم انہیں وقتی مسائل کی جگہ ضرور دیں، ان کے حل کی ممکنہ تدابیر بھی اختیار کریں لیکن ایسی چھوٹی باتوں کو اپنی زندگی کی اصل دلچسپی اور اپنی توجہات کا اصل مرکز کسی مرحلے میں بھی نہ بنائیں۔ یہ بات اس امت کے مقام و مرتبے سے فروتر ہے کہ وہ صرف اپنی شہریت کے دفاع کی فکر میں دن رات صرف کرے یا لنچنگ کا خوف اس کے اعصاب پر سوار ہوجائے یا اس کے دانش وروں اور مفکرین کا کام بس یہ رہ جائے کہ وہ امت کی پسماندگی کا رونا روتے رہیں۔
ہم روزانہ سڑک کے حادثوں اور ان میں مرنے والوں کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ ہم جب سڑک پر گاڑی نکالتے ہیں تو حادثے کا اچھا خاصا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ لیکن گاڑی چلاتے ہوئے اگر حادثہ اور اس کا امکان ہمارے اعصاب پر سوار رہے تو شاید ہی ہم گاڑی چلا پائیں۔ سڑک پر چلنے کا فلسفہ یہی ہے کہ ہم حادثے سے بچنے کی ضروری تدابیر ضرور اختیار کریں، گاڑی بھی چوکس رہ کر چلائیں لیکن ہماری توجہات کا مرکز ہماری منزل رہے۔ جس طرح راستے کی معمولی رکاوٹوں میں الجھ جانا ہمیں منزل سے دور کردیتا ہے، اسی طرح حادثات کا حقیقی و غیر حقیقی خوف اگر اعصاب پر سوار ہوجائے تو ہم ڈرائیونگ کے لائق نہیں رہتے۔
دانش وروں کی ایک جماعت تعلیمی و معاشی ترقی پر توجہات کو مرکوز کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ اول تو یہ بات بحث طلب ہے کہ کیا صرف تعلیمی و معاشی ترقی کسی قوم یا انسانی گروہ کا مقصد حیات بن سکتی ہے؟ جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا ہے، معاشی و تعلیمی ترقی کے لیے بھی محرک درکار ہوتا ہے۔ یہ محرک ایک بلند ملی نصب العین ہی فراہم کرسکتا ہے اور وہ نصب العین ایسا ہونا چاہیے جو اہل اسلام کے ایمان و ا عتقاد سے ہم آہنگ ہو۔ ایک فرد اپنی اور اپنے خاندان کی خوش حالی کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے اور معاشی تگ و دو کرتا ہے۔ ایک قوم اور اجتماعی گروہ کے پاس جب تک کوئی اجتماعی مقصد اور ہدف نہ ہو وہ کس لیے ترقی کرے اور کیوں تعلیم میں آگے بڑھے؟
ملت اسلامیہ ہند کی یہ بڑی اہم ضرورت ہے کہ وہ اس ملک میں اپنی اور اپنے اجتماعی وجود کی معنویت کا شعور پیدا کرے۔ یہ یقین پیدا کرے کہ وہ ایک داعی امت ہے اور ایک ہدف اور مقصد کے ساتھ اسے جینا ہے۔ وہ دعوت دین اور مذکورہ چار نکات کو اپنا وژن بنائے اور اس کے لیے یکسو ہوجائے۔ ہماری جہد و عمل کا محور، ہمارا یہ ہدف بن جائے۔ یہ ہوگا تو ان شاء اللہ، ہمارا قافلہ یکسوئی اور ہم آہنگی کے ساتھ اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ آگے بڑھے گا اور چھوٹے مسائل اور روزمرہ کی رکاوٹوں میں الجھ کر رد عمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوگا۔
(یہ مضمون ہندوستان کے تناظر میں لکھا گیا ہے، لیکن بحیثیت امت ہم سب لیے یکساں مفید ہے)