محی الدین غازی
بچوں کی جسمانی صحت کا خیال رکھنا بہت اچھی بات ہے، ان کے جسم کی بہتر نشوونما کے لیے اچھی غذا، صحت بخش فضا اور حسب ضرورت ٹانک اور دوا کا انتظام ضروری ہے۔ صحت مند دماغ کے لیے صحت مند جسم چاہیے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ دماغ کی صحت اور جسم کی صحت دونوں ہی پر خوب توجہ دی جائے۔
لیکن ہم اپنے بچوں کے سلسلے میں سخت کوتاہی کرتے ہیں جب ہماری ساری توجہ صرف جسم اور دماغ کی پرورش تک محدود ہوجاتی ہے۔ اپنے بچوں کے فربہ ہوتے ہوئے جسم دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، اور ان کی یادداشت اور ذہانت کے مظاہرے ہمارے اندر مسرت بھری گدگدی کرتے ہیں۔ اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے رنگین خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سارے ہی مطلوبہ رنگ مہیا ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن اس خوشی میں ہم بچے کی شخصیت کے سب سے اہم عنصر یعنی دل کو فراموش کردیتے ہیں۔ اور پھر زندگی بھر اس کے برے نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جسم اور دماغ کی پرورش میں مگن ہوکر جب ہم بچے کے دل کی پرورش بھول جاتے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی کوتاہی ہوتی ہے۔ کیونکہ دل کی پرورش کے بغیر ہم چالاک لومڑیاں، شریر بندر، تیز رفتار گھوڑے، سخت جان گدھے اور خوب کھا کر زور سے ڈکارنے والے بیل اور دوسرے بھانت بھانت کے جانور تو تیار کردیتے ہیں، لیکن درد مند اور شکرگزار انسان نہیں تیار کرتے ہیں۔
اگر آپ اپنے بچے کے دل کی پرورش کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر سنجیدگی سے سوچیں کہ آپ کے بچے کے دل کو کیسا ہونا چاہیے، اس کے دل کے اندر کن اوصاف کی آبیاری بہت ضروری ہے۔ وفاداری، ایمان داری، خود داری، سخاوت پسندی، شجاعت پسندی، طہارت پسندی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت اور ایسے بہت سے اوصاف مل کر دل کو کمال عطا کرتے ہیں۔ آپ ایک اچھے اور باکمال دل کا تصور کرکے اپنے بچے کے دل کی بہتر نشوونما پر پورا دھیان دیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ انسان کی اصل شخصیت تو اس کے دل سے عبارت ہوتی ہے۔
یقینی بنائیں کہ اللہ کی محبت، اللہ کی ناراضگی کا خوف، اللہ کی عظمت کا احساس، اللہ کی نعمتوں کا شعور، اور اللہ کی بندگی کا شوق بچے کے دل میں مسلسل پرورش پاتے رہیں۔ جان لیں کہ سورتیں اور دعائیں یاد کرانا، ناظرہ قرآن پڑھانا، نماز کا طریقہ سکھانا، یہ سب اپنی جگہ بہت مفید اور ضروری کام ہیں، لیکن صرف ان کاموں سے دل کی تعمیر نہیں ہوتی ہے۔ دل کے اوصاف پر الگ سے خصوصی توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔
بچے کے دل میں انسانوں سے ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیں۔ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہوجائے۔ کسی کو دکھ دینے کا خیال بھی اس کے دل میں نہ آئے، ظلم سے اسے شدید نفرت ہوجائے، انسانوں کی خدمت میں اسے خوشی محسوس ہو۔ ضرورت مندوں کی مدد کرکے اور بے سہاروں کو سہارا دے کر اسے بے بہا دولت پانے کا احساس ہو۔
اپنے بچے کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک ادا کے پیچھے اس کے دل کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ جیسے ہی محسوس کریں کہ دل میں کوئی منفی جذبہ پروان چڑھنے لگا ہے، فورا اسے خطرناک بیماری قرار دے کر علاج کریں۔
اگر آپ کے کسی بچے نے کوئی مزے دار چیز اکیلے ہی کھالی، تو سمجھ لیں کہ اس کے دل میں خود غرضی اور لالچ کے جراثیم پل رہے ہیں، جب کہ مزے دار چیز کو تقسیم کرکے کھانے کا مطلب ہے کہ اس کے دل میں سخاوت اور کشادگی آرہی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔
اگر والدین یا گھر کے دوسرے بزرگ گھر اور باہر کے پرمشقت کاموں میں مصروف ہیں، لیکن بچے ان کے کاموں میں ہاتھ نہیں بٹاتے، اور اپنی تفریحات میں مگن ہیں، تو سمجھ لیں کہ ان کے دل میں نرمی اور سوز پیدا ہونے سے رہ گیا ہے۔ اگر فوری توجہ نہیں دی گئی تو ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوسکتے ہیں۔
دھیان دیں کہ بچے اپنے رشتے داروں کے سلسلے میں کیا احساس رکھتے ہیں، کہیں ان کے دلوں میں رشتے داروں کے سلسلے میں نفرت کے جذبات تو نہیں پل رہے ہیں۔ وہ آپ کے سامنے کسی رشتے دار کی برائی اور شکایت کرتے ہیں، یا سب کے سلسلے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں؟ کوئی رشتے دار آپ سے ملنے گھر آتا ہے تو بچے خوشی سے اس کا استقبال کرتے ہیں، یا بے زاری اور روکھے پن کا رویہ اختیار کرتے ہیں، آپ بچے کے رویے سے اس کے دل کی نشوونما کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ جو بچہ اپنے دل میں اپنے ہی عزیز واقارب سے نفرت پالتے ہوئے بڑا ہوگا، وہ بڑا ہوکر کس سے محبت کرے گا اور کس سے ہمدردی رکھے گا؟
گھر اور خاندان کے جس شخص سے آپ نفرت کرتے ہیں، اگر آپ کا بچہ بھی اس سے نفرت کا اظہار کرتا ہے، تو آپ کے نفس کی تسکین کا وقتی سامان ہوجاتا ہے، لیکن آپ غور سے دیکھیں کہ اس طرح اس کے دل میں نفرت کے جراثیم پل رہے ہیں، اور پھر سوچیں کہ یہ نفرت اس کے دل کی صحت کے لیے کتنی مہلک ہے۔ آپ اپنے نفس کی تسکین کے لیے اپنے بچے کے دل کی بربادی قبول کرلیتے ہیں، کیا یہ نفع کا سودا ہے؟
جس طرح جسم اور دماغ کی ہمہ جہت نشوونما پر دھیان ضروری ہے، اور کسی ایک پہلو کے سلسلے میں لاپرواہی خطرناک ہوسکتی ہے۔ اسی طرح دل کی پرورش میں بھی تمام پہلووں پر دھیان دینا ضروری ہے۔ اگر آپ نے بچے کے دل میں اللہ کی محبت اتنی زیادہ بڑھادی کہ وہ فرض نمازوں کے ساتھ تہجد کی بھی پابندی کرنے لگا، تو یہ بہت اعلی بات ہے آپ قابل تعریف ہیں۔ لیکن دوسری طرف اگر اس کے اندر خدمت وتعاون کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکا، اور وہ بس لوگوں سے فائدہ اٹھانے والا بن کر رہ گیا، لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا نہیں بنا، تو یہ دل کا بہت بڑا نقص ہے۔ ناقص دل والا انسان کامل جسم لے کر کیا کرے گا۔