محمد رضی الاسلام ندوی
کسی سماج میں جو انسان رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کا آپس میں ملنا جلنا، ایک دوسرے کی مسرتوں میں شریک ہونا، ایک دوسرے کا غم بانٹنا اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا عین تقاضائے فطرت ہے۔ کسی بھی متمدن سماج کی یہ نمایاں پہچان ہوتی ہے۔ جس سماج میں یہ قدریں نہ پائی جائیں اسے غیر متمدن اور دورِ وحشت کی یادگار کہا جاتا ہے۔
اسلام نے اپنے متبعین کے لیے دیگر مذاہب کو ماننے والے کے ساتھ رہن سہن اور تعلقات کے سلسلے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن ان کے والدین کفر وشرک پر قائم تھے، ان سے کہا گیا: ’’اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتارہ۔ ‘‘(لقمان:15)
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ غیر مسلموں سے تعلقات کے ضمن میں عقائد کے معاملے میں کوئی مداہنت اور رواداری نہیں کی جائے گی، البتہ ان کے ساتھ خوش گوار سماجی تعلقات رکھے جائیں گے۔ یہی حکم سورۂ ممتحنہ میں بھی دیا گیاہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنہو ںنے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالاہے۔ ‘‘ (الممتحنہ:8)
انسانی تعلقات کو مضبوطی اور استحکام بخشنے میں تقریبات کا اہم کردار ہوتاہے۔ یہ تقریبات سماجی بھی ہوتی ہیں اور مذہبی بھی۔ غیر مسلموں کی سماجی تقریبات میں اگر ناجائز اور غیر شائستہ کام نہ کیے جارہے ہوں تو ان میںشرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ان کی مذہبی تقریبات میں مسلمانوں کی شرکت جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ان میں عموماً پوجاپاٹ اور شرکیہ اعمال انجام دیے جاتے ہیں۔ شرک سے برأت ظاہر کرنے کے لیے ان میں شرکت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ البتہ ان مذہبی تقریبات اور تہواروں کا جو حصہ سماجی ہوتا ہے، جس میں مختلف قریبی اور اہل ِ تعلق افراد سے محض ملاقات کے لیے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، ان میں شرکت مسلمانوں کے لیے جائز ہے۔ البتہ ان مواقع پر ان کے لیے ضروری ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ چنانچہ اگر کھانے پینے کی چیزوں میں کسی حرام جانور کا گوشت، شراب یا دیگر نشہ آور مشروبات شامل ہوں تو ان سے بچیں۔
غیر مسلموں کی مذہبی تقریبات اور تہواروں کے معاملے میں مسلمانوں کے لیے یہ احتیاط ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ ان کے انعقاد میں وہ خود شریک نہ ہوں۔ مثلاً ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے یہاں کرسمس، ہولی یا دیوالی کی تقریبات منعقد کرکے ان میں اپنے عیسائی یا ہندو دوستوں کو مدعو کریں، یا کسی ایسی تقریب کے کارڈ چھاپ کر تقسیم کریں، یا ہولی کے موقع پر رنگ کھیلیں اور دیوالی کے موقع پر دیے جلائیں، یا کسی تقریب میں شریک ہوں تو مورتی کے آگے ہاتھ جوڑیں یا پیشانی پر تلک لگائیں کہ یہ سب شرکیہ اعمال اور غیر قوموں سے تشبّہ ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔
تہواروں کے موقع پر مٹھائیوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ غیر مسلموں کی طرف سے موصول ہونے والی مٹھائیاں اور کھانے کی دوسری چیزیں قبول کی جا سکتی اور کھائی جا سکتی ہیں، اگر اطمینان ہو کہ وہ دیویوں دیوتاؤں پر چڑھاوے کی نہیں ہیں اور نہ ان میں کسی حرام اور ناپاک چیز کی آمیزش ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں کے تہواروں کے موقع پر انھیں مبارک باد دینے کا معاملہ ہے تو اسے فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں عموماً ناجائز کہا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ انھیں مبارک باد دینے سے کفر و شرک کی تائید اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ دلیل قوی نہیں معلوم ہوتی۔ مبارک باد دینا ایک سماجی عمل ہے۔ اس سے دنیاوی معاملات میں حسن سلوک کا اظہار ہوتا ہے، جس کی قرآن و حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔
اس بنا پر المجلس الاوربی للافتاء و البحوث کے ساتویں اجلاس میں منظور شدہ یہ قرار داد مجھے درست معلوم ہوتی ہے۔ اس کی روشنی میں برِّ صغیر کے علما و اصحابِ افتا کو اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اجتماعی اجتہاد کے اداروںکو اس کے جواز کی تجویز پر غور کرنا چاہیے۔