ببل گم بنانے والی فیکٹریاں!

164

سابق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے الوداعی پارٹی سے خطاب کے دوران فرمایا کہ عدالتوں کو عدالت لگنا چاہیے۔ گویا بین السطور چیف صاحب عدالتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں کوئی بھی باشعور اور باضمیر شخص وطن عزیز کی عدالتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوسکتا کیوں کہ جج صاحبان مقدمے کو ببل گم کی طرح چبانے کا شغل فرماتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بہاولپور کی ایک عدالت میں ایک بزرگ سائل نے جج سے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے فرمایا کہ بغیر ثبوت کے مقدمے کی سماعت کرنا نظام عدل کا مذاق اڑانا ہے۔ زیر سماعت مقدمہ سول کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کردیا تھا مگر اپیل سے پہلے اسے آپ کی عدالت میں لے آئیں اگر توہین عدالت کا مرتکب قرار نہ دیا جائے تو یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ آپ ایک نظر فائل پر ڈالیے اور دیکھیے کہ اسٹام پر خریداری مکان نمبر 52/C کی ہے، مدعی میرے مکان 152/C میں کرائے دار بن کر آیا تھا اور جعلی فرد ملکیت بنوا کر قابض ہوگیا ہے اور عدالت تکمیل معاہدہ کا مقدمہ کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جس مکان کو خریدنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ میرا مکان ہی نہیں اور طرف تماشا یہ ہے کہ فروخت کنندہ بھی کوئی اور ہے پھر اس کی سماعت کا کیا جواز ہے؟ اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کہا ہے؟ مخالف وکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے فائل انتظار کی دہلیز پر رکھ دی گئی اور اور پھر عدم پیروی کی بنیاد پر مقدمہ خارج کردیا گیا۔ بزرگ سائل کا چہرہ صدمے سے کملا گیا تھا، آنکھیں نم آلود ہوگئی تھیں، انہوں نے بڑے افسردہ لہجے میں کہا۔ جناب والا آپ نے مقدمہ مزید چھ ماہ کے لیے لٹکادیا ہے۔
چیف صاحب فرماتے ہیں ملزم کے بارے میں مجھے علم ہوا کہ وہ قاتل ہے پھر بھی قانونی طور پر اسے قاتل ثابت کرنا پڑے گا کیوں کہ ہم انصاف نہیں قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ جن عدالتوں میں قانون کو مذاق بنادیا گیا ہو وہاں قانون کے مطابق فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہاں قانون کے مطابق انصاف کیسے ہوگا؟۔ کیوں کہ انصاف عدالتوں کا مسئلہ ہے نہ کوئی ذمے داری ہے، جہاں مسند انصاف پر موڈی براجمان ہوں وہاں بدامنی اور انتشار کی تخم ریزی ہوتی ہے، عوام بدحال اور حکمران خوشحال ہوتے ہیں، ملکی وسائل سے چند خاندانوں کو نوازا جاتا ہے اور عوام کو ان خاندانوں کا مشقتی بنادیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کا ارشاد گرامی ہے کہ ماڈل کورٹس کا قیام مثبت اقدام ہے ان عدالتوں کے ذریعے ہزاروں سائلین کو بروقت انصاف فراہم کیا جارہا ہے۔ گستاخی معاف! چیف جسٹس صاحب کیا یہ بہتر اور خوش آئند فیصلہ نہ ہوتا کہ آپ عشروں پر محیط مقدمات کے فیصلوں کے لیے بھی ماڈل کورٹس قائم کرنے کا فیصلہ کرتے، فوجداری مقدمات میں ملزم فیصلے سے پہلے ہی مر کھپ جاتے ہیں اور دیوانی مقدمات میں تاخیری حربوں سے اتنی اذیت دی جاتی ہے کہ کئی کئی نسلیں دیوانگی کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں ماڈل کورٹس کی شان میں زمین آسمان کے قلابے اور اظہار تفخرکیا معنی رکھتا ہے جہاں جج وکلا کا دبیل ہو وہاں قانون اور انصاف کی بالادستی کیسے ممکن ہے۔