جسٹس کھوسہ کا شکوہ

225

عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اعزاز میں دیے جانے والے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد عدلیہ کے خلا ف گھناؤنی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران بھی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ مذکورہ درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل ججوں کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی جارہی ہے ۔ عدالت میں کسی بھی کیس کا جب بھی فیصلہ آتا ہے ، یقینا وہ کسی ایک فریق کے خلاف ہوتا ہے اور جس فریق کے خلاف فیصلہ آئے وہ کبھی ا س فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کی جاتی ہیں تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عدالتی فیصلوں سے غیر مطمئن وزیر اعظم عمران خان نیازی کے وزیر اور مشیر اعلانیہ نہ صرف عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کررہے ہیں بلکہ انہوں نے ججوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے اور ان پر مختلف الزامات عاید کیے جارہے ہیں ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے بھی عدالت کو سرعام تنقید کانشانہ بنایا ہے ۔ اس کے نتیجے میںایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ فوج اور عدلیہ کے ادارے ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں ۔ سنیچر کو علی الصبح نامعلوم مسلح افراد پرویز مشرف غداری کیس کے پراسیکیوٹر اور ممتاز وکیل اکرم شیخ کے گھر میں داخل ہوگئے اور انہیں یرغمال بنا کر ان کے گھر میں دستاویزات کی تلاشی لیتے رہے ۔ جاتے جاتے مسلح افراد اکرم شیخ کو دھمکیاں دے کر گئے کہ وہ دوبارہ بھی آسکتے ہیں ۔ عدلیہ پہلے بھی حکومت مخالف فیصلے دیتی رہی ہے مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عدلیہ کے خلاف اور ججوں کی کردار کشی کے لیے اس طرح سے باقاعدہ منظم مہم شروع کی گئی ہے ۔ یہ کوئی اچھا اشارہ نہیں ہے کہ فوج اور حکومت مل کر عدلیہ کے خلاف صف آرا ہوجائیں ۔ عدلیہ اور فوج دونوں ہی ملک کے اہم ترین ستون ہیں ۔ کسی بھی ستون کے کمزور ہونے کی صورت میں نقصان ملک کا ہی ہوگا ۔ اگر عدلیہ نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں موت کی سزا کا فیصلہ دیا ہے تو اسے کیوں پوری فوج کے خلاف فیصلہ سمجھا جارہا ہے ۔ کسی بھی فرد کے خلاف فیصلہ آنے کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے اس میں پورا ادارہ ملوث ہے ۔ نہ توکسی جج کے خلاف جوڈیشیل کونسل میں کوئی ریفرنس منظور ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پوری عدلیہ ہی غلط ہے اور نہ ہی کسی جنرل کے خلاف غداری کیس میں سزا کا یہ مطلب ہے کہ پوری فوج کو سزا دی گئی ہے ۔ خود فوج نے حال میں ہی ایک میجر جنرل اور بریگیڈیر کو موت اور عمر قید کی سزا دی ہے ۔ سزائے موت سے ہی جرم کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر ایک مرتبہ بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ پوری فوج ان افسران کے جرم میں ساتھی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف غداری کیس میں سزا کو غلط انداز سے دیکھا جارہا ہے ۔ ایک فرد کو دی جانے والی سزا کو ایک فرد تک ہی رکھا جائے ۔ اگر حکومت یا کوئی اور یہ سمجھتا ہے کہ پرویز مشرف کو غلط سزا دی گئی ہے تو ا س کے خلاف اپیل کے کئی فورم موجود ہیں ۔ اس کے خلاف مروج طریقوں کے تحت اپیل کی جائے نہ کہ اسے اداروں کی لڑائی میں تبدیل کرنے کا احمقانہ طریقہ اختیار کیا جائے۔ اگر عدالت میں ہر جگہ سے سزائے موت برقرار رہے تو بھی صدر پاکستان کے پاس اس سزا کو معاف کرنے کا اختیار موجود ہے ۔ اس سلسلے میں دانشمندی کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ جو انداز پاک فوج کے ترجمان نے اختیار کیا ہے اس بارے میں پاکستان بار ایسوسی ایشن نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے فوج کا ادارہ دیگر سارے اداروں کو اپنا ماتحت خیال کرتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ادارہ اپنی جگہ اہم ہے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں آزاد ہے ۔ حکومت کا کام عدلیہ اور عدلیہ کا کام فوج نہیں کرسکتی ۔ اگر سارے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے رہیں تو یہ ملک کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اداروں کے لیے بھی ۔ اب تک جو ہوسکا ، ہو گیا۔ بہتر ہوگا کہ اب سارے ہی ادارے اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے پر توجہ دیں۔ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اسے سزا دی جائے اور اسے پورے ادارے پر منطبق نہ کیا جائے ۔