جہالت + وحشت = وکالت

175

جاوید احمد خان
عام طور سے ہم لوگ دنیاوی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو پڑھا لکھا اور عالم فاضل سمجھتے ہیں، یا پھر کوئی دینی تعلیم بہت زیادہ حاصل کر لے ہم اسے علامہ سمجھنے لگتے ہیں اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے تعلیم کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، انہیں ہم جاہل سمجھتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے عالم اور جاہل کا ایک الگ فارمولہ بتایا ہے، قرآن مجید و فرقان حمید کی سورہ فاطر کی آیت نمبر 28 میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے دل میں خوف خدا ہے وہ عالم ہے چاہے دنیاوی اعتبار وہ بالکل ناخواندہ اور انگوٹھا ٹیک ہی کیوں نہ ہو اور جن لوگوں کے دل خوف خدا سے خالی ہوں وہ جاہل ہیں چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے کتنے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر ہوں۔
اسی طرح سورہ والتین میں ہے کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی یہ کہ ایک اچھی فطرت پر پیدا کیا اور پھر پلٹ کر اسفل السافلین کردیا لیکن اس اسفل اسافلین سے وہ لوگ بچ جائیں گے جو ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اور نہ صرف یہ کہ ضلالت کے گڑھے میں گرنے سے بچیں گے بلکہ ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والے اجر کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ مولانا مودودی نے اسفل السافلین کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے ذہن و جسم کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا پر پہنچا دیتا ہے کہ کوئی اور مخلوق گراوٹ کی اس حد تک پہنچی ہوئی نہیں ہوتی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بہ کثرت مشاہدے میں آتی ہیں۔
9دسمبر کو لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہمارے دنیاوی لحاظ سے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ حضرات یعنی وکیلوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت حملہ کیا دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے توڑ ڈالے اسپتال کی مشینریز کو ڈنڈے مار مار کر ناکارہ کردیا اور جو نقصان وہ کر سکتے تھے انہوں نے کیا، ایسا معلوم ہورہا تھا تمام وکلا غیظ و غضب میں ڈوبے ہوئے ہیں، پوری دنیا نے اس منظر کو اپنی آنکھوں سے ٹی وی چینلز کے ذریعے سے دیکھا۔ یہ کالی کوٹ پینٹ والے جو بظاہر تو پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ نظر آرہے تھے لیکن وہ جس طرح توڑ پھوڑ کررہے تھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ان سب کے دل خوف خدا سے خالی ہوں اور جن کے دل خوف خدا سے خالی ہوں قرآن کی نظر میں وہ جاہل ہیں پھر اس سانحے میں بات جہالت تک ہی نہ رہی بلکہ اس نے آگے بڑھ کر وحشت کا روپ دھار لیا اور وہ سورہ والتین میں ہے کہ ہم نے انہیں اسفل السافلین یعنی نیچوں سے نیچ کردیا ان کے دل ایمان سے خالی اور ان کے اعمال صالح نہ تھے جبھی تو مریضوں کے منہ سے ماسک نوچ لیے گئے ہاتھوں پر سے کینولا کھینچ لیا ۔ای سی جی مشین توڑ دی گئی۔ جو مریض اسپتال میں اپنی جان بچانے کے لیے آئے تھے وہ بے چارے اپنی جان سے گئے۔
2007میں پرویز مشرف کے خلاف یہی وکلا ہراول دستہ تھے آمریت کے خلاف مہم میں ان وکلا کی قربانیاں ملکی تاریخ کا حصہ ہے عوام کے دلوں میں وکلا حضرات عزت و احترام بہت زیادہ ہو گیا لیکن اس کا ایک دوسرا نقصان یہ ہوا کہ وکلا کی گردنوں میں سریا آگیا یہ اپنی انا کے سحر میں گرفتار ہو گئے ججوں کو مارنا پولیس والوں پر تشدد آئے دن خبروں کا موضوع بنتی رہتی ہیں۔ لاہور میں دل کے اسپتال کا واقعہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مسلسل کئی اس قسم کے ناپسندیدہ واقعات کی وجہ سے وکلا گردی کی اصطلاح وجود میں آئی عوام کے دلوں میں محبت و احترام کی جگہ نفرت و غصے نے لے لی۔
یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے سانحات رونما ہو جاتے ہیں جن کا کہیں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان بستیوں میں جہاں ناخواندہ حضرات رہتے بستے ہوں وہاں اگر وہ آپس میں لڑ پڑیں توکہا جاسکتا ہے کہ یہ کم پڑھے لکھے جذباتی لوگ ہیں ان کے اندر برداشت کی کمی ہے۔ لیکن معاشرے کے دو ایسے طبقات جو تعلیم یافتہ اور معزز سمجھے جاتے ہوں وہ قصائیوں والی حرکتیں کرنے لگیں تو اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ خیر اب جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا سینئر وکلا نے اس کی شدید مذمت کی ہے اور ایسی حرکتیں کرنے والے وکلا بھی پشیمان ہیں۔
اس موقع پر ڈاکٹروں سے بھی یہ کہنا ہے کہ آپ کا بڑا مقدس پیشہ آپ بھی اس کے تقدس کا خیال رکھیں، پہل آپ کی طرف سے ہوئی تھی اسپتال میں اگر آپ صبر و تحمل سے کام لیتے اور وکیلوں پر تشدد نہ کرتے تو یہ سانحہ رونما ہی نہ ہوتا۔ عدالت میں چونکہ یہ کیس چل رہا ہے اور عدالت نے دونوں فریقوں سے کہا ہے کہ ہر فریق اپنے میں سے چار افراد کا تعین کریں جو آپس میں ملاقات کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔