سب ہی بے حد نہیں ہو گئے؟

196

پاکستان میں گزشتہ 72 برسوں سے جس قسم کے حالات چل رہے ہیں اس کے نتائج اب بہت شدت سے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
قدرت نے ہمارے چہرے کو دوسروں کے لیے ایسا آلہ بنایا ہے کہ اس کو دیکھ کر ہر ذی شعور اس بات کو جان سکتا ہے کہ وہ جس چہرے کو دیکھ رہا ہے وہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔ خوشحال کا چہرہ بدحال کے جیسا نہیں ہو سکتا، نیک چہرہ بدمعاشوں سے مختلف ہوگا۔ یہ تو وہ مادی حقیقت ہے جس کو حواسِ خمسہ سے دیکھا، سونگھا، چکھا اور چھوا جا سکتا ہے لیکن کچھ وہ چیزیں بھی ہیں جن کو انسانی آنکھ سے دیکھا تو نہیں جاسکتا لیکن وہ ہوتی بھی ہیں اور ان کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان نہ دکھائی دینے والی چیزوں میں انسان کی ذہنی کیفیت بھی شامل ہے۔ جس طرح موسم، علاقے، زبان، ماحول اور حالات کا اثر انسان کے چہرے مہرے پر پڑتا ہے اسی طرح انسان کا ذہن بھی ہر قسم کے موسم، علاقے، زبان، ماحول اور حالات کا اثر بہت تیزی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ ذہن و دل کا متاثر ہوجانا تو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا لیکن اس کے افعال، حرکات و سکنات، اس کا انداز فکر، اس کی گفتگو، اس کا سلوک اور دوسروں کے ساتھ اس کے اٹھنے بیٹھنے کا انداز بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ کس کیفیت اور کن حالات سے گزر رہا ہے۔
کسی بھی قوم کے لیے 70 یا 72 برس کم نہیں ہوتے۔ اگر ستر بہتر سال میں اس نے بے سکونی، بے یقینی اور ابتلا و آزمائش ہی دیکھی ہو تو پھر اس کی ذہنی کیفیت ان اقوام کی طرح کی کیسی ہو سکتی ہے جہاں امن ہو، سکون ہو، اطمینان ہو، قانون بھی ہو اور اس پر عمل بھی دکھائی دے رہا ہو، اسے انسان سمجھا جارہا ہو، اسے اپنے جذبات کے اظہار کی مکمل آزادی ہو، اس کے لیے روز گار ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انصاف اسے اس کی دہلیز پر مل رہا ہو۔ جس ملک میں 72 سال سے تجربات ہی چل رہے ہوں کہ اس کا آئین کیسا ہونا چاہیے، اللہ کے بتائے ہوئے راستے اچھے ہیں یا شیطانی راہوں کا انتخاب اس کی زندگی کے لیے زیادہ بہتر ہے، پارلیمانی نظام درست ہے یا صدارتی نظام اچھا ہے، مارشل لا قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے یا سول حکمرانی اس کے بیڑے کو پار لگا سکتی ہے۔ جہاں امن نہیں ہو، سکون و اطمینان غارت ہو، بے روزگاری لوگوں کو چور اور ڈاکو بنا رہی ہو، جہاں مہنگائی نے عوام کا خون نچوڑ کر رکھ دیا ہو اور جہاں سیاسی مخالفت اس عروج پر ہو کہ ہر سیاسی جماعت کو دوسرا سیاسی جماعت والا ملک دشمن نظر آتا ہو وہاں لوگ پاگل ہو کر نہیں رہ جائیں گے تو کیا عام انسانوں کی سی باتیں کرتے نظر آئیں گے؟۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو پاکستان میں اب کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں رہ گیا جو اپنے جامے سے باہر نظر نہیں آرہا ہو۔ ہر ادارہ اپنی حد سے ’’بے حد‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔
پہلے پہل تو صرف ایسا ہی تھا کہ عوامی سطح پر الجھنیں محسوس کی جاتی تھیں۔ ملک میں جگہ جگہ احتجاج ہوا کرتے تھے۔ جلوس، جلسے ہوا کرتے تھے اور بہت ہوا تو ہڑتالیں ہوجایا کرتی تھیں لیکن اب یہ خلجان عوامی سطح سے نکل کر اداروں کی سطح تک آن پہنچا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں اب کوئی جنگ یا ٹکراؤ ہوگا تو وہ سیاسی یا مذہبی پارٹیوں کے سر پھرے لوگوں کے درمیان نہیں ہوگا بلکہ ادارے ایک دوسرے سے ٹکڑائیں گے اور ملک کے عوام تالیاں بجا بجا کر اس تصادم پر پاگلوں کی طرح رقص کر رہے ہوں گے۔
پاکستان میں بڑا کون ہے؟، یہ بحث بہت عرصے سے جاری ہے۔ کسی کو کرپشن میں پکڑ لیا جاتا ہے تو وہ یہ کہتا نظر آتا ہے کہ فلاں تو مجھ سے بھی بڑا ہے۔ کسی قاتل کو گرفتار کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ 111 والے اور 96 والوں کو کیوں نہیں دیکھتے۔ کسی راشی کو پکڑا جاتا ہے تو وہ اپنے سے بڑے راشی کا حوالہ دیتا ہے۔ گویا کوئی ایک بھی چور، ڈاکو، قاتل، راشی اور بد عنوان کبھی یہ نہیں کہتا کہ اس پر لگایا جانے والا الزام غلط ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ مجھ سے بھی بڑے بڑے پاکستان میں پڑے ہیں۔ یہی بحث اداروں اور اداروں کے درمیان چل پڑی ہے کہ ہم میں سب سے باوقار، باعزت، مستحقِ تخت و تاج، ملک کا ٹھیکیدار، ریاست کا کرتا دھرتا، وفادارِ سلطنت اور طاقتور کون ہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے کہ اپنی برتری دکھانے کا یہ مرض اب عوام کی سطح سے بلند ہوتے ہوتے اداروں تک آن پہنچا ہے اور لگتا ہے کہ یہ بیماری کا شاید آخری درجہ ہے جس کے بعد اگلا مرحلہ آخری آرام گاہ ہی رہ جاتی ہے (ہزاربار خدا نخواستہ)۔ تو بے جا نہ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جو گڑھا کسی دوسرے کے لیے کھودا جاتا ہے اس میں اکثر گڑھا کھودنے والا خود ہی گرجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ دھرنوں کا رواج، خصوصی عدلتوں کا قیام، عدالت کا سہارا لیکر ہر غیر آئینی و قانونی اقدام کو قانون میں ڈھالنا، اور عدالتوں کو بے حد اختیارات دے کر ان سے اپنی مقصد براری حاصل کرنا جیسے بہت سارے گڑھے آج ان کے لیے ہی عذاب بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں انہیں دوسرے کے لیے کھودا تھا۔ یہی وہ عدالتیں ہیں جو ایک وزیر اعظم کو سولی پر چڑھانے کے لیے استعمال ہوئیں، تین وزرائے اعظم کی رسوائی کا سبب بنیں، ہر مارشل لا کو قانونی قراردینے کا ذریعہ بنائی گئیں اور یہی وہ عدالتیں ہیں جن کے ہر فیصلے کو ایک طاقتور ادارہ خاموشی سے دیکھتا رہا۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ وہی ہتھیار جو ایک سائنسدان کسی دوسرے ملک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایجاد کرتا ہے خود اس کا ملک بھی اسی ہتھیار کی زد میں آجاتا ہے۔
گزشتہ تین چار دن سے ملک کے حالات ایک مرتبہ پھر ’’حالت‘‘ جنگ کا شکار ہو چکے ہیں مگر یہ جنگ کسی بیرونی دشمن سے نہیں یا سرحد پار کسی عسکری قوت سے نہیں بلکہ یہ جنگ اداروں کی ایک دوسرے پر برتری کی جنگ ہے۔ یہ جنگ عدلیہ اور مقتدرہ کی جنگ ہے اور دونوں اس جنگ میں ’’بے حد‘‘ نظر آ رہے ہیں۔ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو معاملہ بہت ہی سیدھا اور سادہ ہے۔ جس طرح عدالتیں پہلے اپنے فیصلے سناتی رہی ہیں اسی طرح ایک فیصلہ سابق جنرل اور سابق صدر پاکستان کے لیے بھی آ گیا۔ اگر اس کو اسی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا تو ہزار قانونی طریقے اور بھی ہیں جن کا سہارا لیکر اس مشکل وقت کو آسانی میں بدلا جا سکتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ اس مقدمے کی مدعی حکومت تھی اور فریق ادارہ نہیں بلکہ اس ادارے کا ایک سابق جنرل تھا۔ کسی کی سال ہا سال کی کارکردی کا حوالہ اپنی جگہ لیکن آئین کو توڑنے جیسا اقدام اپنی جگہ۔ اگر حال ہی میں ایک حاضر دیوٹی جنرل جس کی 30 بتیس سالہ خدمات کے باوجود اس کو ملکی قوانین سے غداری پر فوجی عدالت نہ صرف موت کی سزا سنا سکتی ہے بلکہ اسے دار پر بھی چڑھا سکتی ہے تو کسی جنرل کے آئین پاکستان توڑنے پر ایک سول عدالت آئین و قانون کے مطابق سزا کیوں نہیں سنا سکتی۔ اگر اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کسی ادارے کو بطور ادارہ آنے اور بار بار یہ احساس دلانے کی گنجائش کسی بھی طور نہیں بنتی کہ ’’ہم ادارے کی عزت و وقار کی حفاظت کرنا بہت اچھی طرح جانتے ہیں‘‘۔ میری رائے میں ادارے کی عزت و وقار آئین و قانون کے احترام میں ہے، اس سے سر کشی میں نہیں۔
ایک جانب عدلیہ اپنے فیصلوں میں استعمال کیے گئے ریمارکس میں اپنی حدود سے تجاوز کرتی دکھائی دے رہی ہے تو دوسری جانب عسکری ادارے کا لب و لہجہ ایک اور آئینی بحران کا سبب بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اداروں کے یہ لب و لہجہ اور حکومت کی بے بسیاں اس بات کی غماز ہیں کہ پاکستان 72 برسوں سے جن حالات کا شکار ہے اس نے شاید عام فرد سے لیکر حکومت ہی کا نہیں پاکستان کے سارے اداروں کا ذہنی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور اب ایک عام فرد سے لیکر سب ادارے اپنی اپنی آئینی حدود سے باہر نکل پڑے ہیں۔ میں بار بار ایک بات ضرور دہراتا ہوں کہ یہ ملک اللہ کے قانون کے نفاذ کے لیے بنایا گیا تھا۔ جب تک پوری قوم اسی جانب لوٹ کر نہیں آئے گی، پاگل سے پاگل تر ہوتی جائے گی اس لیے جتنی جلد ممکن ہو اسے اللہ کی جانب رجوع کر لینا چاہیے ورنہ تباہی و بربادی کا عفریت اپنا پورا دہانہ کھولے اس قوم کے سر پر کھڑا ہے۔