ایف اے ٹی ایف کا شکنجہ

150

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان سے مدارس سے متعلق تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ فورس نے پاکستان کی جانب سے دسمبر کے اوائل میں داخل کرائے گئے جواب کے جواب میں 150 سوالات پر مشتمل نیا مراسلہ تھما دیا ہے اب اس کا جواب 8 جنوری تک دینا ہوگا۔ یہ وہی سوالات ہیں جن کا پاکستان کی معیشت یا بلیک منی سے کوئی تعلق نہیں لیکن امریکی سرپرستی میں ایف اے ٹی ایف نے دنیا بھر کے مسائل کی جڑ دینی مدارس کو بنا لیا ہے۔ ٹاسک فورس کو جتنی گھاس ڈالی جاتی ہے وہ اس سے آگے بڑھ کر مطالبات کرتی ہے۔ پاکستان نے دینی مدارس کے خلاف کارروائی کا یقین دلایا تھا فورس نے کارروائی کا ثبوت مانگا، ثبوت دیا گیا تو اب مقدمات کی تفصیل مانگی گئی ہے۔ اگلی مرتبہ ان مقدمات پر کارروائی کی تفصیل مانگی جائے گی اور پھر کسی بھی نکتے پر عدم اطمینان کا اظہار کرکے پاکستان کو پھر لٹکا دیا جائے گا۔ گزشتہ برس پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس لسٹ سے بلیک لسٹ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان اپنے جن دوستوں کی مدد سے اس گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے سے بچا تھا اب ان کو ناراض کیا جاچکا ہے ایسے میں 8 جنوری کو دیا جانے والا جواب بھی خطرے میں ہوگا۔ خارجہ محاذ پر بھی حکومت کی ناکامی ظاہر ہو چکی ہے۔ اب 150 سوالات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ہمنوائوں کی تلاش اور ناراض دوستوں کو منانے کا کام بھی کرنا ہوگا۔ لیکن پاکستان کا یہ حال ہے کہ عدلیہ کے ایک فیصلے پر فوج اور حکومت پوری عدلیہ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ جو کام عدالتوں میں کرنے کا تھا وہ اخبارات کی زینت بنا دیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بحران کا شکار ہے۔ کوئی ادارہ دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جب حکومت عدلیہ اور ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں مصروف ہو، فوج اپنے ہی اداروں کو دشمن تصور کرنے لگے اور حکومت بھی اس کی وکالت میں لگی ہوئی ہے تو ایف اے ٹی ایف میں کون مقابلہ کرے گا۔ ایف اے ٹی ایف بھی خوب ہے۔ گرے لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جانا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر پاتے۔ ایف اے ٹی ایف کا یہ مطالبہ کہ پاکستان غیر قانونی طور پر دولت اور اثاثے منتقل کرنے والے ذرائع کی شناخت کرے اور ان کے خلاف اقدامات کرے۔ دہشت گردی کی مالی امداد کرنے والے ذرائع لوگوں اور اداروں کے خلاف موثر اقدامات کرے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سوالات مدارس سے متعلق ہیں۔ پاکستان میں جتنے مقدمات قائم ہوئے، جتنے لوگوں کو منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پکڑا گیا یا ان کے خلاف مقدمات قائم ہوئے ان میں سے ایک بھی مدارس سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ دہشت گردی کے جتنے بڑے واقعات ہوئے ان میں الزام تو ابتدائی طور پر مدرسوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر لگایا جاتا رہا اور الیکٹرانک میڈیا لمحوں میں تصدیق کر دیتا تھا لیکن عدالتوں میں یہ الزامات ثابت نہیں ہو پاتے۔ حال ہی میں متنازعہ بنائے گئے چیف جسٹس پشار ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار درجنوں لوگوں کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے بری کیا۔ حکومت نے تو ان لوگوں کو دہشت گرد، ان کا سہولت کار وغیرہ قرار دے کر مقدمات قائم کر دیے تھے۔ اسی طرح پاکستان کا سب سے بڑا اور مشہور منی لانڈرنگ کیس آصف زرداری صاحب کے خلاف ہے۔ دوسرے بڑے الطاف حسین اور ان کی پارٹی ہے لیکن یہ لوگ تو کسی دینی مدرسے کے لوگ نہیں خود وزیراعظم فارن فنڈنگ کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ منی لانڈرنگ دہشت گردی میں معاونت کرنے اور درجنوں مقدمات رکھنے والے گروہ کا نمائندہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی نمائندگی کرے گا۔ ایف اے ٹی ایف نے جن چیزوں کی نشاندہی کرنے اور کارروائی کا مطالبہ کیا ہے مغربی ممالک، امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی وغیرہ ان ذرائع کے نہ صرف موجد ہیں بلکہ ان کا بھرپور استعمال بھی کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے زیر زمین گروہوں کو ان ہی کے پاس سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ خود امریکی سفارتکار اس کا برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم نے صدام کے خلاف زیر زمین گروہوں کی مالی مدد کی۔ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروہ ایم کیو ایم کی سرپرستی بھی برطانیہ کر رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو تو برطانیہ کو گرے، بلکہ بلیک لسٹ میں شامل کرنا چاہیے! جہاں سے ساری دنیا کے دہشت گرد اپنے اپنے ملکوں میں دہشت گردی کے لیے رقوم فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان سے سوال پوچھنے کے بجائے ایف اے ٹی ایف میں شامل طاقتور ممالک خود ان ذرائع کو بند کریں۔ پاکستان سے یا بیرون ملک سے پاکستان بڑی رقوم کی منتقلی ان بڑے ملکوں کے نیٹ ورک کے بغیر ممکن نہیں۔ دہشت گردی کی ساری کارروائیوں کی سرپرستی دنیا میں تین چار ممالک کر رہے ہیں۔ وہ امریکا، برطانیہ، بھارت اور اسرائیل ہیں اور باقی سہولت کار ہیں۔ یہی ممالک پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مصروف ہیں اور سوالات بھی دینی مدارس کے بارے میں۔ پھر یہاں سے جوابات دینے کے لیے متحدہ کا وزیر بھیجا جائے گا۔ بہرحال وہ بھی ان تمام ذرائئع سے اچھی طرح واقف ضرور ہوں گے شاید اس لیے ان کو بھیجا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان جس جال میں پھنسی ہوئی ہے اس سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اندرونی خلفشار کو پیار محبت اور درد مندی سے ختم کیا جائے۔ بدمعاشوں کی طرح دھاڑنے اور دھمکیاں دینے سے انتشار مزید بڑھے گا۔ یہ بات سمجھ میں بہت مشکل سے آتی ہے اور جب سمجھ میں آتی ہے اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔