کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

222

وکلا ایک مدت تک معاشرے کا خاموش اور باوقار طبقہ رہا۔ بہت سے نامور وکلا سیاست میں ذاتی حیثیت میں سرگرم بھی ہوتے رہے مگر طبقاتی بنیاد پر ان کا کردار محض پیشہ ورانہ رہا۔ اپنی انجمنوں کے انتخابات یا سیاسی جماعتوں کے وکلا بازو قائم کرنے تک یہ رفتار بہت دھیمی، باوقار اور معین کردہ دائروں کے اندر ہی محدود رہی۔ مختلف مزاحمتی تحریکوں میں وکلا نے بطور کمیونٹی بہت کم حصہ لیا جب بھی وہ کسی لہر کا حصہ بنے تو وہ بھی صرف اپنی ممدوح جماعت کے وکلا بازو کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہوا اور یہ شرکت یہیں تک محدود رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی برطرفی کے خلاف جو تحریک چل پڑی بظاہر وہ کرم خوردہ اور طول پکڑتی ہوئی شخصی حکمرانی سے تنگ وبیزار معاشرے کا خود رو پودے کی طرح اچانک اور الل ٹپ ردعمل تھا وقت اس کی اندرونی پرتوں کو ضرور سامنے لائے گا۔ اس تحریک میں زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں نے حصہ لیا مگر وکلا نے اس تحریک میں مرکزی اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ نجی میڈیا اس وقت تک پاکستان کی سیاست میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اُبھر کر سیاسی نین نقش تراشنے کے قابل ہوچکا تھا اس لیے میڈیا نے وکلا کی تحریک کو گلیمرائز کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پر مستزاد اعتزاز احسن جیسے متوازن اور دانشور شخص کی قیادت اور علی احمد کرد کی سطحی ہی سہی مگر شعلہ نوائی بھی تھی جس سے تحریک میں طبقاتی گلیمر بڑھتا چلا گیا۔
اعتزاز احسن وکلا تحریک سے مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے اور دکھانے والوں میں نمایاں تھے۔ ان کی مشہور زمانہ نظم ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ میں وکلا تحریک کے بعد پاکستان کی منظر کشی جس دلکش انداز میں کی گئی تھی وہ لمحہ بھر کو سننے والو ں کو ایک حسین اور تصوراتی جنت میں پہنچانے کا باعث بنتی ہے جس میں وکلا تحریک کے نتیجے میں ایک ایسے انصاف پسند، عدم تشدد سے لبریز روزگار تعلیم صحت جیسی سہولت کے حامل ایک معاشرے کا خواب موجود تھا۔ آج اعتزاز احسن اپنے ان خوابوں کی کرچیاں دیکھ کر شرمسار اور دل گرفتہ ہیں اور وہ برملا اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ تحریک اپنے منطقی اور کامیاب انجام کو پہنچ گئی مگر اعتزاز احسن کے دکھائے خواب سراب ہی ثابت ہوئے۔ وکلا کسی بڑی اصلاحی اور طویل المیعاد تحریک کی بنیاد کیا بنتے طاقت کے اسلوب اور اصول پر یقین رکھنے والے ایک نئے جتھے کی شکل میں مجتمع ہوگئے۔ المیہ یہ ہوا کہ وکلا کا قابل احترام اور باوقار طبقہ پس منظر میں چلا گیا اور فتنہ پرور گروہ اس معزز پیشے کی پہچان اور شناخت پر قابض ہوکر اس کا چہرہ بن بیٹھے۔ ایک آمر کو پچھاڑنے اور چند معزول ومقید ججوں کو بحال وآزاد کروانے کی کامیابی نے وکلا کے نئے لوگوں میں طبقاتی احساس برتری پیدا کیا اور یوں ملک میں لٹھ برادروں کی ایک نئی فورس قائم ہوگئی۔
کسی بھی طبقے میں طاقت کا اسلوب اور اصول بن جانا وہی نتائج لاتا ہے جو پاکستان کے دل لاہور میں دل کی مسیحائی کے ایک مرکز پر حملے کی شکل میں برآمد ہوا۔ معاشرے کے ایک ڈگری ہولڈر طبقے کی طرف سے جس رویے کا مظاہرہ کیا اس پر من حیث القوم شرمندگی اور ندامت کے مارے سب سر شرم سے جھک کر رہ گئے ہیں۔ اس سے یہ تلخ حقیقت ایک بار پھر عیاں ہو کر سامنے آئی کہ مجموعی طور پر ہم کس قدر ذہنی دیوالیہ پن اور اخلاقی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس دلدوز کہانی کو چند لفظوں میں بیان کیا جائے تو یوں ہوگا کہ وکلا مریضوں اور مسیحائوں پر پل پڑے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا نے کالے کوٹ کے تقدس اور قانون کی حکمرانی کا جنازہ اس دھوم سے نکالا کہ اب اس طبقے کو معاشرے میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گا۔ وکلا ایک جتھے کی صورت اسپتال پر اس طرح چڑھ دوڑے کہ جیسے سرنگا پٹم قلعے کی فتح کا آخری معرکہ لڑنا مقصود ہو۔ وکلا اسپتال کے باہر تک اپنا احتجاج محدود رکھتے تو پرامن اور مہذب انداز سے اپنی بات کہنے اور احتجاج کرنے کا حق ادا ہوجاتا۔ اگر وکلا کا کوئی خود سر گروہ اسپتال کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا تووہ شائستگی اور تہذیب کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے نعرے بازی کرکے باہر نکل آتا تو اپنی بات کہنے کا حق بھی ادا ہوتا اور احتجاج بھی ہوجاتا اور مظاہرین کی اخلاقیات کا بھرم بھی رہ جاتا مگر جو ہوا اس کے قطعی برعکس تھا۔ وڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے کچھ خاتون وکلا گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوئیں انہوں نے باقی لشکر کو راستہ صاف ہونے کا یقین دلایا اور ہاتھ ہلا ہلا کر اندر بلایا۔ کالے کوٹ کے حامل لشکریوں نے اسپتال کے اندر داخل ہوکر جو کیا وہ ایک دلدوز کہانی ہے۔ وکلا نے عوام اور مخیر حضرات کے عطیات سے حاصل ہونے والی اسپتال کی مشینری کو عین جہاد سمجھ کو توڑ پھوڑ دیا۔ شیشے توڑے گئے، گملے اچھالے گئے، مریضوں کے منہ سے آکسیجن ماسک اتار لیے گئے۔ جس کے نتیجے میں کئی مریضوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس دوران مریضوں، ان کے عزیر واقارب اور تیمارداروں کو گھنٹوں یرغمال بنایا گیا۔ لیڈی ڈاکٹرز اور نرسوں کے کپڑے پھاڑ ے گئے۔ کئی وکلا مسلح بھی تھے جنہوں نے فائرنگ بھی کی۔ تین ڈاکٹروں کا سر پھاڑ دیا گیا۔ اس حملے میںکروڑوں روپے کی مشینری برباد کی گئی۔
دوگھنٹے تک وکلا اسپتال کی جانب مارچ کرتے رہے مگر پولیس اور انتظامیہ غائب تھی۔ ریاست کا وجود نہیں تھا۔ اسپتال کی طرف بڑھتے ہوئے وکلا کے تیور ہی سے انتظامیہ کو حالات کے رخ کا اندازہ کرکے اسپتال کے گرد حفاظتی انتظامات سخت کرنے چاہیے تھے مگر انتظامیہ کا وجود نظر نہ آنا لمحہ فکر ہے۔ کسی پرانے تنازعے کی بنیاد پرکسی ڈاکٹر کی غلطی سزا مریضوں کو دینے کی یہ انوکھی مثال ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں وکلا کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے اور دوسرے طبقات کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات بڑھتے چلے گئے۔ ان عناصر کو عدالتی نظام کا تحفظ حاصل تھا اس لیے ایسے قانون شکن عناصرکے حوصلے بڑھتے چلے گئے۔ لاہور کا واقعہ اس رویے کا نقطہ عروج ہے۔ یہ واقعہ ہماری اخلاقی حالت کا پورا ایکسرے سامنے لایا ہے۔ اس ایکسرے میں معاشرے کے مریض جاں بہ لب کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ریاست نے احتجاج سے پہلے جس تساہل اور تغافل کا مظاہرہ کیا اب واقعہ ہوجانے کے بعد اس کے ازالے کا پورا پورا سامان کرنا چاہیے۔ اس معاملے کو جرگہ سسٹم کے بجائے قانون کی عملداری کے اصول پر حل ہونا چاہیے۔ واقعے میں جس شخص نے قانون ہاتھ میں لیا ہے اسے سزا کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ عدلیہ اور معزز اور باوقار وکلا کو جن کی اس پیشے میں اکثریت ہے قانون کا مذاق اُڑانے والے ان عناصر کو اپنے پروں تلے چھپانے کی روش ترک کرکے قانون کی سربلندی اور بالادستی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا چاہیے کیونکہ طاقت کو اصول اور اسلوب بنانے والے یہ رویے معاشروں کو انارکی کی طرف لے جاتے ہیں۔