وقاص احمد
گزشتہ ایک دو ہفتوں سے تواتر سے ملک میں ایسے واقعات جنم لے رہے ہیں جن میں ملکی نظام کی دہائیوں سے الجھی گتھیاں سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ طبیعت بوجھل اور دماغ بھاری سا لگ رہا ہے۔ سلجھنے والی بات پر ہوسکتا ہے قارئین کو حیرت ہو لیکن راقم یہ بات اس تناظر میں کہہ رہا ہے کہ لا محالہ ملک میں گزشتہ گیارہ سال میں ترتیب سے تین الیکشنوںکا باقاعدہ انعقاد ہوا۔ فوج بعض خالصتاً حساس دفاعی معاملات میں نا پسندیدہ حالات کے باوجود بھی آئین شکنی سے باز رہی اور نہ ہی اس نے حکومتوں کے معاملات میں کوئی ایسے خاص روڑے اٹکائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اعلیٰ ترین فوجی قیادت نے پارلیمنٹ آکر منتخب نمائندوں کو بریفنگ دی، سوالو ں کے جوابات دیے۔ پریس کانفرنسوں میں ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا واضح تاثر دیا کہ یہ ایک نئی فوجی قیادت ہے جو ملکی آئین کے تابع ہے۔ پھر آگے چل کر دو ایسی سیاسی پارٹیاں جنہوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر کے باریاں لگانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ان کا کم ازکم وفاق اور پنجاب میں نہ صرف ٹوٹا بلکہ جن لوگوں کو غور سے دیکھنا بھی موت کو دعوت دینا تھا وہ کرپشن کے الزام میں جیل کے اندر نظر آئے۔ عدالتوں نے طاقتور شریف فیملی اور مضبوط زرداری مع احباب کے خلاف فیصلے دیے۔ ماڈل کورٹس نے ملک کے طول و عرض میں تیزی سے ہزاروں کیسز نمٹائے۔ نیب لڑکھڑا لڑکھڑا کر سہی لیکن چلنے کے قابل نظر آیا۔ عوام کو ن لیگ اور پی پی پی کی نمائشی اپوزیشن اور سیاسی ڈرامے بازی سے نجات ملی۔ کراچی میں سیاسی و لسانی جتھے بازوں کی لاقانونیت اور دہشت کافی حد تک ختم ہوئی۔ لندن سے طویل دورانئے کے کھیل بند ہوا۔ ملک کی مجموعی امن امان کی صورتحال قابل تعریف حد تک بہتر ہوئی۔
بتانا مقصود یہ ہے کہ بہت سارے مسائل خاص طور پر مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت کا سامنا کرنے کے باوجود ریاستی نظام میں کچھ کچھ بہتری آنا شروع ہی ہوئی تھی کہ سانحہ ساہیوال کے چونکا دینے والے فیصلے، پھر نواز شریف کی کرشماتی ضمانت، درندے نما وکلا کا اسپتال پر حملے کا عدیم المثال سانحہ اور پھر اس سانحہ پر عدالتی نظام کی سست روی نے راقم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف آرمی چیف کے توسیعِ مدتِ ملازمت کیس کے تفصیلی فیصلے نے ایک بہتر اور قابل تعریف عمل کو اس لیے متنازع بنادیا کہ اس میں راقم کی نظر میں اعلیٰ عدلیہ نے پارلیمنٹ کو ضرورت سے زیادہ ہدایات دیکر پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات میں مداخلت کردی۔ اور پھر آخر میں پرویز مشرف کے حوالے سے ان کے خلاف دوسرے سنگین کیس بنانے اور ان کی سماعتیں تیز کرنے کے بجائے جس کیس کو تیزی سے آگے بڑھا یا گیا وہ آئین شکنی و غداری کیس تھا جس نے عام پاکستانیوں اور افواج پاکستان میں نہ صرف ’’غداری‘‘ کے مفاہیم کی بحث چھیڑ دی بلکہ ترجمان پاک فوج کو اس فیصلے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنا پڑا۔ پرویز مشرف کو ایسے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی جس میں انہوں نے آئین توڑتے ہوئے پہلے 1999 میں نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اور دوسری بار 2007 میں اْس وقت کے چیف جسٹس کو نکال باہر کیا۔ یہ وہ چیف جسٹس تھے جنہوں نے پہلی بار مشرف کے آئین توڑنے پر نہ صرف پی سی او پر حلف لیا بلکہ ان کے اقدامات کی تائید کرتے کرتے چیف جسٹس تک ترقی بھی پائی۔ اس مقدمے میں مشرف کے ساتھ بیس پچیس فوجی افسروں، سیاست دانوں، قانونی مشیروں کی پیشیاں اور سزا تو ایک طرف ان میں سے کسی ایک شخص کا نام بھی فیصلے میں نہیں لیا گیا۔
و صورتحال پر اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ طاقت کا ایک نیا مرکز ابھر رہا جس کے اپنے ہی اصول ہیں اپنے ہی اہداف ہیں اپنے ہی کچھ دوست ہیں اپنے ہی کچھ تعین کردہ دشمن ہیں۔ مستقل مزاجی اور توازن کا کم از کم ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ بعض مسائل کی اہمیت مکھی جتنی بھی نہیں اور کسی معاملے پر اتنی حساسیت ہے کہ ہر چیز قربان۔ نچلی عدالتوں کے بعض فیصلوں کے خلاف کبھی تو اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے غیر معمولی اقدامات نظرآتے ہیں لیکن ایک سانحہ ساہیوال ہے جو لگ رہا ہے کہ ہاں واقعی یہ ایک عام آدمی کا کیس ہے جو بااثر پنجاب پولیس کے خلاف ہے جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ ایک طرف تو کراچی میں ایک رکن اسمبلی کے تھپڑ پر از خود نوٹس، پیشیاں، معافیاں اور جرمانے اور دوسری طرف اسپتال پر حملے میں متاثرین کو پھول کے تحفے دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کے مشورے۔ کیا اربابِ امر و اختیار نے لسانی سیاسی جتھوں کے بعد اس ملک میں پیشہ وارانہ جتھوں کو فروغ دینا ہے۔ کیا اب سڑکوں پر قانون نافذ کرنے والے، وکالت اور ڈاکٹری کے پیشوں سے تعلق رکھنے والے شتر بے مہار کھلے عام حیوانیت کا مظاہرہ کریں گے اور انہیں پاکستان میں کسی کا خوف نہیں ہوگا؟۔ ملک بھر میں طاقتوروں کے ہاتھوں مرنے، لٹنے، عزت گنوانے، رسوا ہونے والے کیسز اور معاملات کب قومی معاملہ بنیں گے؟ کب ایک طاقتور کے خلاف ایک عام آدمی کا کیس حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کی آنکھ کا تارا بنے گا جس کی روزانہ کی بنیاد پر طویل سماعتیں ہوں، جس میں حکام کی دوڑیں لگیں، چھٹی والے دن بھی عدالت کھلے۔ کسی عام آدمی کے لیے بھی کسی فیصلے کے خلاف اپیل سے پہلے سزا معطلی کی درخواست نہ صرف سنی بلکہ صرف چند سماعتوں میں ہی قبول بھی کی جائے۔
ہم یہ بات جانتے ہیں ہر جج حتیٰ کہ سول اور سیشن کورٹ کا جج بھی فیصلوں کے معاملے میں کسی کے تابع نہیں ہوتا لیکن اسے آئین اور قانون پر بہرحال چلنا ہوتا ہے۔ اسے خوف ہوتا ہے کہ اگر اس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق نہ ہوا تو اوپر کی عدالتیں نہ صرف فیصلہ کالعدم قرار دے دیں گی بلکہ اس کا اپنا کیریر بھی دائو پر لگ سکتا ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ سے اوپر تو دنیا کی کوئی عدالت نہیں۔ ان کی احتیاط، ذمے داری، مستقل مزاجی، ان کا ہمہ گیر توازن ہی ان کے غیر معمولی احترام کی وجہ بنتی ہے۔
آنے والے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ جب اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ ہائی کورٹس اور عدالت عظمیٰ کا ہر جج اپنی جگہ ایک عدالت اور ایک آزاد ذہن ہے جس کا کام عدل و انصاف سے فیصلے کرنا ہے تو ججوں کے تقرر کے معیار کا ازسر نو جائزہ لے کر اسے بلند کیا جائے۔ دوستیاں، یاریاں، بھائی بندیاں اور سیاسی وابستگیاں تو اس معزز کام کے لیے تو ناپاک و حرام شے ہیں۔ سانحہ پی آئی سی ان کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہوگا جس میں انہیں اپنے شعبے کے لوگوں کے بارے میں عدل کرنا ہوگا۔ دوسرے مقدمے بھی نظر ثانی کے لیے پیش ہوںگے۔ اربابِ امر و اختیار سے گزارش ہے کہ خدارا! ملک کو آنے والے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک کو تیار کریں۔ نظام میں مستقل مزاجی اور عدل و استحکام لائیں۔ قرآن و سنت کی طرف دلی آمادگی سے پیش قدمی کریں۔ ورنہ اللہ ہم سب کو اسی طرح مختلف طاقت کے مراکز میں بانٹ کر ہمیں ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھاتا رہے گا۔