طلحہ ادریس
’’آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ طلبا تنظیموں کا افرادِ کار کی تیاری میں کردار ہوتا ہے۔‘‘ ایم فل کے مقالے کا موضوع منتخب کرنے والے اساتذہ میں سے ایک نے کہا۔ طالبِ علم گویا ہوا: ’’محترم! ان دنوں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ جو امیدواران طلبا تنظیموں کا حصہ رہے ہیں ان کے لیے مجمعِ عام کوخطاب کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہوتا۔‘‘استادِ محترم کہنے لگے: ’’مجھے آپ کسی مجمع کے سامنے کھڑا کر دیں تقریر تو میں بھی کر لوں گا۔ دورِ طالبِ علمی میں مَیں کسی طلبا تنظیم کا حصہ نہیں رہا۔ بس طلبا کو پڑھا پڑھا کر تقریر کرنے کے قابل ہو گیا ہوں۔‘‘ طالبِ علم کی آنکھیں چمکیں: ’’استاد جی! اگر آپ کو پڑھانے کا موقع میسر نہ آتا تو بھی مجمعِ عام کو خطاب کرلیتے آپ؟‘‘ اس دلیل میں وزن تھا۔ سو محسوس بھی کیا گیا۔ طالبِ علم اپنا پیش کردہ موضوع منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا۔
طلبا تنظیمیں افراد کی خدا داد صلاحیتوں میں نکھار لاتی ہیں۔ کچھ کرنے اور کر گزرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں ایک دور تھا، طلبا شعوری طور پر ان تنظیموں کا حصہ بنتے تھے۔ افکار و خیالات سے متاثر ہوتے تھے۔ تحاریک اٹھاتے اور اپنے مطالبات منواتے تھے۔ خود ہی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے اور اپنے نمائندگان کی یونین بناتے تھے۔ طلبا یونین کے انتخابات معطل کرنے کے شاہی حکم نامے کے بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لے لی ہے۔ طلبا تنظیموں کا وجود باقی ہے لیکن تحرک میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نعرے اب بھی لگتے ہیں لیکن وہی روایتی۔ افکار و نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے لیکن ملکی سطح پر مقابلے کی وہ فضا نہیں جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں تھی۔ اب عموماً طلبا کی اتفاقی یا جذباتی وابستگی اپنی سوچ اور فکر کی ہم آہنگ تنظیموں سے ہوتی ہے۔
اسلامی جمعیتِ طلبہ پاکستان کے دائیں بازو کی طلبہ تنظیم ہے۔ اس کا اپنا دستور ہے۔ اسی دستور میں پانچ نکاتی پروگرام لکھا ہوا ہے۔ دعوت، تنظیم، تربیت اور اسلامی فلاحی ریاست کا قیام سنگ ہائے منزل ہیں۔ ایک چھوٹے سے حلقے سے لے کر ملکی سطح تک ہر سال ذمہ داران کا انتخاب یا استصواب ہوتا ہے۔ ذمہ داران اپنی ذمہ داریوں کا حلف اٹھاتے ہیں۔ احتساب کا نظام موجود ہے۔ یہ احساس بھی ساتھ ساتھ کہ ایک احتساب اس ذاتِ باری کے حضور ہونا ہے جو ظاہری اعمال سے بھی باخبر اور چھپے رازوں سے بھی آگاہ ہے۔ دورِ جوانی میںاصولِ دینِ مبیں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر اور رضائے الہٰی کے حصول جیسا مقصد عمر بھر کا اوڑھنا بچھونا بنانے کا عہد کیا جاتا ہے۔ ان الفاظ کو لکھ دینا اور زبان سے ادا کر دینا بہت آسان ہے لیکن یہ عہد وفا کرنا آسان نہیں۔ شاید اسی لیے بہت سے ساتھیوں کے قدم عملی زندگی میں ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہ اعتراض بجا ہے کہ جوانی کی بہاریں اسلامی جمعیتِ طلبہ کی ٹھنڈی چھاؤں میں گزارنے والے جماعتِ اسلامی کا حصہ نہیں بنتے۔ جواب کے طور پر سو باتوں کی ایک بات یہی ہے جمعیت ایک بہتا دریا ہے جس کی روانی جوانی سے ہم آہنگ، جبکہ جماعت ایک چٹان ہے جس کی چوٹیاں سر کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔جمعیت نے معاشرے کو اَن گنت افرادِ کار دیے ہیں۔ شعبۂ تعلیم ہو یا سیاسی میدان؛ انتظامی امور کے ماہرین سے لے کر ابلاغی اداروں کے مالکان تک؛ طب کی دنیا ہو یا قانون دان؛ معاشیات کا ذکر کریں یا ہندسیہ کو دیکھیں؛ ہر جگہ، ملکی و بین الاقوامی سطح پر سابقینِ جمعیت نظر آئیں گے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے دیگ کے ایک چاول کے طور پر ایک فہرست چند ناموں کی یہاں دے دی جائے۔
پروفیسر خورشید احمد، خرم مرادؒ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ، ظفر اسحاق انصاریؒ اور محمد عمر چھاپڑا نے کامیاب زندگی کے ابتدائی اسباق اسی درس گاہ سے پڑھے ہیں۔یہاں کے تربیت یافتہ قاضی حسین احمدؒ،سید منور حسن، لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی،عارف علوی، فرید پراچہ، حافظ سلمان بٹ، سراج الحق، احسن اقبال، میاں محمود الرشید،اسد قیصراورچودھری جعفر اقبال سیاسی محاذوں کے شہ سوار ہیں۔دو قومی نظریے کی خاطر جانیں وارنے والے مطیع الرحمن نظامی شہید، علی احسن محمد مجاہد شہید اور میر قاسم شہید اسی چشمۂ فیض کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اعجاز شفیع گیلانی اور احمد بلال محبوب کی جوانی یہیں بیتی ہے۔مغرب کی وادیوں میں اذانیں دینے والے عبدالملک مجاہد اور زاہد حسین بخاری اسی چھاؤں میں پلے بڑھے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی، شیخ محمد اکرم اور اسد منظور بٹ عدالتی چوکٹھوں پر اس کا تعارف ہیں۔ ابلاغیات کے میدان کے نامور مجیب الرحمن شامی، میاں عامر محمود، سجاد میر، چودھری عبدالرحمن،حفیظ اللہ نیازی، جنید سلیم اور نصر اللہ ملک اسی راہ کے راہی رہے ہیں۔صدیق سالک،کرنل (ر)اشفاق، ذوالفقار چیمہ، اوریا مقبول جان، عبدالباسط اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق بھی رہا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد، ڈاکٹر حسن صہیب مرادؒ،عبدالمنان خرم اورسید وقاص انجم تعلیمی دنیا میں اس کی پہچان ہیں۔فائز حسن سیال، یوسف الماس یزدانی، سید قاسم علی شاہ اور اختر عباس کی پہلی محبت یہی ہے۔دریائے کنہار کی بے رحم موجوں سے اپنے طالبِ علم کو بچانے کے لیے کود جانے والے نصراللہ شجیع شہید کے نام پر اس فہرست کا اختتام کرتا ہوں۔
اللہ کریم اس گلشن کوآباد رکھے۔ ؎
جمعیت نے زندگی سنوار دی
جوانیوں کو دین کی مہار دی