بار کونسلیں انصاف کی راہ میں رکاوٹ

171

لاہور میں پی آئی سی حملہ کیس میں حملہ آور وکلا پر سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا مطالبہ نہ تسلیم کرنے پر پنجاب بار کونسل نے پیر کو صوبے بھر میں ایک اور ہڑتال کی ۔ ہڑتال کے لیے اتوار کو دیے جانے والے اعلامیے میں پنجاب بار کونسل نے اس امر کی خصوصی ہدایت کی تھی کہ صوبے کی تمام ہی عدالتوں میں لاک ڈاؤن کو یقینی بنایا جائے ۔ اس ہدایت کا صریح مطلب یہ تھا کہ جو وکیل اس جبری ہڑتال کے حق میں نہیں ہیں، انہیں بھی عدالت میں حاضر نہ ہونے دیا جائے ۔ اس طرح سے وہ تمام سائلین ایک بار پھر رُل گئے جو انصاف کے حصول کے لیے پنجاب بھر کی عدالتوں میں آئے تھے ۔ عدالت میں ایک دن کی ہڑتال کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ان کے مقدمات آئندہ روز پیش ہوجائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب ان کے مقدمات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگئے ہیں ۔ تمام ہی بار کونسلوں کو اس امر کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ عملی طور پر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ پی آئی سی حملہ کیس ایک کھلا کیس ہے ۔ اس میں زیادتی ڈاکٹروں نے کی یا وکیلوں نے ، ڈاکٹروں نے وکیلوں کا مذاق اڑایا ، ان سب سے قطع نظر کسی کو اسپتال پر حملے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ امر واقعہ ہے وکیل جتھے کی صورت میں پی آئی سی پر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے مریضوں اور ان کے لواحقین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ۔ آئی سی یو میں داخل مریضوں کے آکسیجن ماسک تک نکال کر پھینک دیے گئے جس کی وجہ سے چار مریض جان سے گئے ۔ پنجاب بار کونسل یا وکیلوں کی کوئی اور نمائندہ تنظیم یہ بتائے کہ دہشت گردی اور کیا ہوتی ہے ۔ اصولی طور پر تو ان تمام افراد کے خلاف جو مریضوں کی جان لینے میں ملوث تھے ، قتل عمد کا مقدمہ چلنا چاہیے ۔ وڈیو کلپ موجود ہیں کہ وکلاء کا جلوس پی آئی سی کے سامنے احتجاج کے لیے نہیں گیا تھا بلکہ ان کا شروع ہی سے اسپتال کو تاخت و تاراج کرنے کا ارادہ تھا۔ اب تک کی روایات کے مطابق اندیشے یہی ہیں کہ معاملہ رفت گزشت ہوجائے گا مگر ا س پورے قضیے سے وکیلوں کا جو تصور عوام میں دھندلایا ہے ، اسے کہیں سے بھی قابل رشک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔