جماعت اسلامی کا چشم کشا مارچ

225

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں لاکھوں افراد نے اتوار کو دارالحکومت اسلام آباد میں مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف مارچ کرکے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ پاکستانی عوام کیا چاہتے ہیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے مارچ میں عوام صرف بھارتی اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج نہیں تھے بلکہ انہیں اتنی ہی شکایت حکومت پاکستان سے بھی تھی جو بھارتی جارحیت کے باوجود بے حمیتی کی چادر اوڑھے سورہی ہے۔ عوامی احتجاجی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مجرمانہ خاموشی ختم کرکے کشمیر کو بھارتی پنجے سے آزاد کروانے کے لیے واضح روڈ میپ دے ۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی درست تصویر کشی کی ہے کہ آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑنے والوں نے گزشتہ پانچ ماہ میں ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے ۔ کشمیری اور پاکستانی انتظار کررہے ہیں کہ کب حکومت اعلان جہاد کرے گی مگر ٹیپو سلطان کے راستے پر چلنے کا نعرہ لگانے والے عمران خان نیازی 27 ستمبر کی تقریر کے بعد چپ سادھ کر بیٹھ گئے ہیں ۔ کوئی توجہ دلائے تو کہتے ہیں کیا کشمیر پر حملہ کردوں؟ اس کے لیے جرأت اور جمعیت درکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی سطح پر اور کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کرنے کی پالیسی سے بھارتی حکومت کو شہ ملی ہے اور وہ مزید جارحانہ اقدامات کرتا چلا جارہا ہے ۔ بھارت گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے خلاف کامیابی سے آبی جنگ لڑ رہا ہے ۔ پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روکنے اور ان کا بہاؤ تبدیل کرنے کے لیے سیکڑوں ڈیم بناچکا ہے مگر اس پر پاکستان کی طرف سے علامتی احتجاج کے سوااور کچھ نہیں ہوا ۔ اب مودی نے متنازع شہریت بل کے ذریعے پورے بھارت میں صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مذکورہ شہریت بل کے بعد بھارتی مسلمان عملی طور پر بے زمین ہوجائیں گے ۔ انہیں نہ روزگار ملے گا اور نہ ہی طبی سہولتیں، ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولت حاصل ہوگی اور نہ ہی کسی اور قسم کی شہری سہولتیں ۔ مودی کے اس احمقانہ امتیازی بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پربدترین ریاستی تشدد جاری ہے ۔ روز کئی مظاہرین ریاستی تشدد کے نتیجے میں جان سے جاتے ہیں اور سیکڑوں گرفتار ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر وڈیو کلپ وائرل ہیں کہ بھارتی پولیس اور فوج مسلمانوں کی املاک کو خود تباہ کررہی ہیں جبکہ گرفتار شدگان کی جائیداد کو بھی ضبط کیا جارہا ہے ۔ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی پاکستان میں سرکاری سطح پر مجرمانہ خاموشی ہے ۔ ایک آدھ نیم دلانہ بیان دے کر عمران خان نیازی اور ان کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ادا ہوگیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد پارٹی ہے جو مسلسل سقوط کشمیر پر حکومت کو بلکہ عوام کو بھی یاد دہانی کروارہی ہے ۔ جماعت اسلامی کا ماضی پاکستان کی حفاظت کے حوالے سے سب سے زیادہ تابناک ہے ۔ یہ جماعت اسلامی کے کارکنان ہی تھے اور ہیں جنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کی عملی مزاحمت کی اور اس کی قیمت وہ اب تک بنگلا دیش میں پھانسی کے پھندوں کو چوم کر ادا کررہے ہیں ۔ پاکستانی فوج اور حکومت نے تو 1971 میں بھارتی سازش کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے مگر جماعت اسلامی کے کارکنان نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے ہیں ۔ یہ جماعت اسلامی کے کارکنان ہی تھے جو سابقہ سوویت روس کی افغانستان میں سرخ یلغار کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ناقابل دفاع سوویت روس کو نہ صرف شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیے ۔ امریکا کو افغان جنگ میں پاکستانی عوام کے کردار کا احساس ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات کے انعقاد کے لیے بار بار پاکستان کے در پر سجدہ ریز رہتا ہے ۔ جماعت اسلامی کی قیادت بھی اور کارکنان بھی جذبہ شہادت سے سرشار ہیں ۔ ان کامقصد حیات ہی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت ہے ۔ اتوار کو جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے عوامی مارچ کو دیکھ کر عمران خان نیازی کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے ۔ انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر عوامی جذبات کو زیادہ دیر تک مصنوعی طریقے سے روکا گیا تو وہ سیلاب بن کر راہ میں آنے والی ہر چیز کو بہا لے جائے گا ۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان نیازی مسئلہ کشمیر پر عوامی نمائندوں خاص طورسے جماعت اسلامی جیسی پارٹی کو اعتماد میں لیں اور واضح طور پر بتائیں کہ ان کے پاس کشمیریوں کو آزاد کروانے کا کیا منصوبہ ہے ۔ حکومت پاکستان سے مایوس کشمیری عوام میںاب یہ سوچ پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت پاکستان محض وقت گزار رہی ہے اور انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ خود ہی کرنا چاہیے ۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں بھارتی سول سوسائٹی کے ارکان نے جنہوں نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا ہے ، اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پرامن احتجاج اور سول نافرمانی سے بھارتی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لہٰذا انہیں عسکریت کا راستہ اختیار کرلینا چاہیے ۔ اس سلسلے میں فدائی حملوں کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے ۔ حکومت پاکستان کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ایک مرتبہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان سے مایوس ہوگئے تو پھر وہ پاکستان سے بھی الحاق نہیں کریں گے اور یہ صورتحال کہیں سے بھی پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہوگی ۔