بات چلی تھی فرد واحد جنرل پرویز مشرف سے جو پاکستان میں طاقت کی تنہا علامت کے طور مدتوں پہچانے جاتے رہے ہیں مگر بات چلتے چلتے اداروں کی انا اور طبقاتی کشمکش میں ڈھلتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ معاملات یکسر ایک نئے رخ پر چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ منظر ماضی میں با رہا پیدا ہوا اور ہر بار اس کا نتیجہ ملک وقوم کے لیے اچھا برآمد نہیں ہوا کیونکہ سیدھا سادا قانون اور آئین کا معاملہ طاقت کی کشمکش میں ڈھل گیا اور طاقت کے اصول میں جیت طاقت ورترین کی ہونا ہی اصول ہوتا ہے۔ اس بار بھی آئین وقانون کے معاملے میں ماضی کی سول ملٹری کشمکش عدلیہ فوج کشمکش کا رنگ اور رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پرویز مشرف کی سزائے موت کا سب سے اہم پہلو علامتی ہے۔ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی کے جرم میں سزائے موت سنا دی ہے۔ جلسوں میں ترازو کے پلڑوں کو اونچا نیچا کرکے ملک کے قانون وانصاف کا مذاق اُڑانے والوں کو شاید اب عدالتوں کے آزاد ہونے کا یقین آگیا ہو۔ اگر نہیں آیا تو اسے میٹھا میٹھا ہپ کڑو ا کڑوا تھو کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ معاملہ ہے مگر پاکستان کی ماضی کی روایات اور رویوں میں ایک تبدیلی کا اشارہ ضرور ہے۔ عدلیہ طاقت کا خوف جھٹک کر آگے بڑھنے کی راہ پر گامزن ہے مگر عدلیہ پر ابھی خود نظام انصاف کی اصلاح کے مشکل کام کی ذمے داری باقی ہے۔
پرویز مشرف کی سزا پر جی ایچ کیو میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کا جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں اس فیصلے پر فوج میں غم وغصے اور دکھ کا اظہار کیا ہے اور انہیں غدار تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا ہے۔ جس سے معاملہ ایک اور ہی رخ پر چلتا نظر آرہا ہے۔ پرویز مشرف کے بارے میں خصوصی عدالت کے فیصلے اور عمل درآمد کے مرحلے میں ’’ابھی ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘۔ کا فاصلہ ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ابھی اپیل کے حق کا دروازہ کھلا ہے۔ اس فیصلے میں دو کے مقابلے میں ایک اختلافی نوٹ بھی ایک جج کا ہے۔ اس فیصلے کے قانونی اور آئینی پہلوئوں اور اس پر عمل درآمد کی صورت نکلنے جیسے معاملات سے قطع نظر جنرل پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کا ایک تلخ اور قابل عبرت کردار اور باب ہیں۔ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ہی تشویش میں مبتلا مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ترکی کے مصطفی کمال پاشا اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تھا مگر بعد کے دنوں میں انہوں نے خود کو ترکی کے اتاترک کے بجائے مصر کا حسنی مبارک ثابت کیا۔ اقتدار کی طوالت کی خاطر مغرب بالخصوص امریکا کے لاڈ اُٹھانے کی روش نے انہیں وقتی طور پر ان حلقوں میں روشن خیال اور اعتدال پسند مسلمان حکمران کے طور پر مشہور تو کیا مگر وہ اپنے حلقہ اثر اور زمین پر غیر مقبول ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا ایک دن ان کے مزید اقتدار کی خواہش ناتمام رہ گئی اور پرنم آنکھوں سے پہلے تو اپنی طاقت کی علامت ڈھائی فٹ کی کمانڈ اسٹک اپنے جانشین کے حوالے کرنا پڑی اور اگلے مرحلے میں انہیں اقتدار کے ایوانوں سے رخت سفرباندھ کر گھر کی راہ لینا پڑی۔ پاکستان میں طاقت کی عمر کی میعاد یہی کچھ دس سال کا عرصہ رہا ہے۔ ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف تینوں فوجی حکمرانوں کا اقتدار اتنی ہی حیات پاسکا۔
اتاترک کو آئیڈیل قرار دینے اور حسنی مبارک کے انداز اپنانے والے پرویز مشرف کے لیے تقدیر نے ’’جنرل حسین محمد ارشاد‘‘ کا کردار چن رکھا تھا۔ اسی کی دہائی کے بنگلا دیشی فوجی حکمران کے اقتدار کا سورج اس وقت آب وتاب کے ساتھ چمکتا رہا جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی پورے جوبن پر تھی۔ جنرل مشرف نے بھی اقتدار کو سہارا دینے کے لیے اپنی ایک سیاسی جماعت کا خاکہ ذہن میں سجا رکھا تھا جسے بعد میں انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے عملی شکل بھی دی۔ جنرل ارشاد کی طرح اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد وہ طویل سیاسی اننگز کھیلنے کے موڈ میں نظر آتے تھے۔ جنرل ارشاد نے ضیاء الرحمان کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالا تھا اور ضیا الرحمان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ آتش انتقام میں جلتی ہوئی ان کی جماعت کی قیادت ان کی بیوہ خالدہ ضیاء نے سنبھالی اور یہیں سے جنرل ارشاد کا زوال شروع ہوا۔ وہ عدالتی چکروں میں پھنستے چلے گئے اور جس سیاسی زندگی کو مزے لے کر گزارنے کی امید پر وہ جی رہے تھے وہ جیلوں اور پیشیوں کی نذر ہو کر رہ گئی۔ جنرل ارشاد کا مقدر جنرل مشرف پر سایہ فگن ہوگیا اور ان کی سیاسی زندگی کو انجوائے کرنے کی خواہش عدالتی مقدموں کی دلدل اور جلاوطنی کی آگ میں جل کر رکھ ہوتی چلی گئی۔ جن پانچ لاکھ فیس بکی مداحوں کی امید پر وہ ملکی سیاست میں دخیل ہونے کے خواہش مند تھے وہ ہوا بن کر اُڑ گئے اور انہیں فیس بک اور زمینی حقیقت کا فرق سمجھا گئے۔ عدالتی مقدمات ان کا پیچھا کرتے رہے۔ لندن اور دبئی کی پر آسائش زندگی میں حالات اور مقدمات کی یہ تلخی ان کا تعاقب کرتی رہی۔ اب بھی وہ پھانسی کے پھندے سے اگر وہ بچ بھی گئے مگر ماضی کے واقعات انہیں خوف زدہ کیے رکھیں گے اس فیصلے نے انہیں تاریخ کا ایک متنازع کردار بنا دیا ہے۔