برطانوی انتخابات

135

12دسمبر کو پانچ سال کی مدت میں برطانیہ کے تیسرے وسط مدتی قومی انتخابات منعقد ہوئے، وقت سے پہلے انتخابات کا سبب بریگزٹ تھا، میں ماضی میں بریگزٹ کے بارے میں دوکالم لکھ چکا ہوں۔ سابق وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹِرسامے اس کی نذر ہوگئے، ڈیوڈ کیمرون نے باوقار انداز میں منصب چھوڑ دیا اور ٹِرسامے نے اپنی بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں پے درپے ناکامی کے بعد خوار ہوکر یہ منصب چھوڑا۔ بورس جانسن بھی پچھلی پارلیمنٹ سے منظوری لینے میں ناکام رہے، لیکن ان کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے موجودہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، ان کا نعرہ یہی تھا کہ ہر قیمت پر یورپین یونین سے نکلنا ہے۔ لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربِن روایتی بائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں، انہوں نے ہیلتھ اور سوشل سیکٹرکا بجٹ بڑھانے، جس میں ایک لاکھ مکانات کی تعمیر بھی شامل ہے اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے پرکشش وعدے بھی کیے، لیکن شاید عوام پر بریگزٹ کا خَبط سوار تھا اور وہ محسوس کر رہے تھے کہ گزشتہ پارلیمنٹ نے اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنی اہلیت کا ثبوت نہیں دیا۔ اگرچہ سب سے حساس مسئلہ اب بھی برطانیہ اور یورپین یونین میں بیک اسٹاپ کا ہے کہ جب برطانیہ یورپین یونین سے نکل آئے گا تو اس کے اور یورپین یونین کے درمیان کسٹم کے حوالے سے فاصلاتی دیوار کہاں ہوگی، کیونکہ 2004ء میں ایک معاہدے کے تحت جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں کسٹم چیک کو ختم کردیا گیا تھا، لیکن اس وقت برطانیہ یورپین یونین میں شامل تھا، پس بریگزٹ میں سب سے اہم رکاوٹ یہی مسئلہ ہے۔ اگر شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان سمندر کو حدِّ فاصل یا بیک اسٹاپ بنایا جاتا ہے تو کسٹم کی حد تک شمالی آئرلینڈ برطانیہ سے الگ ہوجائے گا، حالانکہ وہ اب بھی برطانیہ کا حصہ ہے۔ ٹرسامے یہی کہتی تھیں کہ میں سمندر میں لائن کھینچ دوں، کیا کروں۔
اب جبکہ بورس جانسن نے ہر قیمت پر یورپین یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور برطانوی عوام نے ان کو یہ اختیار بھی دے دیا ہے، تو اس بات کا انتظار رہے گا کہ اس مسئلے کا حل کیا نکلتا ہے۔ بحیثیتِ ادارہ فیصلہ نہ کرسکنے کے سبب برطانیہ کی سابق پارلیمنٹ کی نااہلی بہرحال ثابت ہوئی، جو بھی ڈیل آتی، اُسے ردّکردیا جاتا، لیکن متبادل حل کسی کے پاس نہیں تھا۔ جیرمی کوربِن کا پروگرام یہ تھا کہ یورپین یونین سے اخراج کے بارے میں نئے مذاکرات ہوں اور مکمل اخراج سے بچ کر کوئی درمیانی صورت نکالی جائے، لیکن شاید برطانوی عوام اس غیر یقینی صورتِ حال سے بے زار ہوچکے تھے اور ان کی قومی انا کو ٹھیس پہنچ رہی تھی، اس لیے انہوں نے آنکھیں بند کر کے واضح اکثریت کے ساتھ بریگزٹ کے فیصلے پر ایک بار پھر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، اب انتظار اس بات کا ہے کہ اکتیس جنوری 2020 تک کیا ہوتا ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
شمالی امریکا اور یورپ میں نسل پرستی کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے، جو عالمی سیاست کے لیے ایک خوشگوار علامت نہیں ہے، برطانیہ کافی حد تک نسل پرستی کے خُمار سے بچا ہوا تھا، لیکن اب یہ خطرہ اس کے دروازے پر بھی دستک دے رہا ہے، اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش نیشنل پارٹی نے حالیہ انتخابات میں فیصلہ کن برتری حاصل کی ہے اور اس کا ایجنڈا برطانیہ سے علیحدگی کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرانے کا ہے، اس صورت میں وہ یورپین یونین کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیں گے، شمالی آئرلینڈ میں بھی علٰیحدگی پسند تقویت پکڑ رہے ہیں، سو برطانیہ کی سلطنتِ عُظمیٰ کا آفتاب مرجھاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربِن نے انتخابات میں اقلیتی طبقات کی حمایت میں کھل کر بات کی، جس میں فلسطین کی آزاد حکومت کو تسلیم کرنا اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانا وغیرہ شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سفید فام آبادی نے اِس وسیع النظری کو ردّ کردیا ہے حتیٰ کہ یہودیوں کے چیف رِبِّی نے بھی اُن کے خلاف اسٹیٹمنٹ جاری کیا۔ جیرمی کوربِن نے برطانوی جمہوری روایات کے مطابق اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی سربراہی سے دستبردار ہوجائیں گے اور اپنے دستور کے مطابق آئندہ سال لیبر پارٹی اپنا نیا قائد منتخب کرے گی جو آئندہ انتخاب میں پارٹی کی رہنمائی کرے گا۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں مشہور ماہر سیاسیات پیٹر پزلر نے کہا تھا: برطانوی پارٹی پالیٹکس کی بنیاد طبقاتی ہے، یعنی ورکنگ کلاس اور طبقہ امراء یا اشرافیہ، باقی سب اس کی تفصیلات اور جزیات ہیں، سو ٹوری پارٹی کو اپر مڈل اور اپر کلاس اور لیبر پارٹی کو ورکنگ کلاس کی نمائندہ جماعتیں سمجھا جاتا تھا اور ان کے انتخابی نعرے اس طبقاتی تقسیم کے عکاس ہوتے تھے۔ پھر اکیسویں صدی آتے آتے سارا تناظر ہی تبدیل ہوگیا حتیٰ کہ ٹونی بلیر کے دور میں منشور اور انتخابی نعروں کے حوالے سے کوئی نمایاں فرق باقی نہ رہا، دونوں بڑی پارٹیاں لیبر اور ٹوری سینٹرل پارٹی پالیٹکس کر رہی تھیں۔
پھر ایسا وقت آیا کہ جیرمی کوربِن لیبر پارٹی کے قائد منتخب ہوگئے، وہ روایتی سوشل لبرل ڈیموکریٹ تھے، اس لیے ان کی قیادت میں پارٹی کا جھکائو بائیں بازو کی طرف ہونے لگا، اسی نظریاتی بنیاد پر آفس ہولڈرز میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ جیرمی کوربن اپنی 36سالہ سیاسی زندگی اور 31برس کے پارلیمانی دور میں نہ صرف یہ کہ پارٹی کی پرانی فکری روایات کے ساتھ جڑے رہے، بلکہ پارٹی کو انہی بنیادوں پر استوار کرنے لگے۔ اسی بنا پر ان کی قیادت کو چیلنج بھی کیا گیا، ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی آئی، لیکن وہ اس میں سرخرو رہے اور اس کے نتیجے میں ان کی گرفت پارٹی پرمضبوط ہوتی چلی گئی۔ 2017ء کے وسط مدتی انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں ان کی عددی اکثریت میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں ان کی خود اعتمادی کا گراف اوپر بھی چلا گیا۔
لیکن 12دسمبر 2019ء کے وسط مدتی انتخابات لیبر پارٹی کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوئے، یہ 1931ء کے بعد لیبر پارٹی کی بدترین شکست تھی۔ جیرمی کوربن کے بعض قابل اعتماد ساتھی اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مڈ لینڈ اور نارتھ لیبر غلبے والی روایتی سرخ دیوار بھی منہدم ہوگئی۔ 1970ء سے مسلسل پچاس برس ارکان پارلیمنٹ رہنے والے ڈینس اسکنر، جو بابائے پارلیمنٹ کہلاتے تھے، بھی ہار گئے۔ لیبر پارٹی کی شکست کے وہ واضح اسباب جن کو میڈیا نے بھی نمایاں انداز میں بیان کیا اور پارٹی کے اندر بھی جس کا ارتعاش محسوس کیا گیا، وہ بریگزٹ اور جیرمی کوربِن کی ذات تھی۔
برطانیہ کے مشہور سروے گروپ Ipsos Mori کے سروے کے مطابق گزشتہ بارہ مہینوں میں برطانوی عوام کے لیے سب سے تشویشناک مسئلہ بریگزٹ رہا۔ ستمبر میں ہونے والے سروے کے مطابق 57تا 62فی صد عوام نے بریگزٹ کو اور صرف 36فی صد عوام نے نیشنل ہیلتھ سروس کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ اسی سروے گروپ نے دسمبر 2019ء کے انتخابات کے دن ایگزٹ پول سروے تیار کیا تھا، اس میں اس کا اشتراک BBC،SKY اور ITV نیٹ ورکس کے ساتھ تھا۔ رات دس بجے پولنگ ختم ہوتے ہی، جبکہ ابھی ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع بھی نہیں ہوا تھا، ایگزٹ پول ریزلٹ جاری کردیا گیا، جو حیران کن حد تک حقیقی نتائج کے قریب تر تھا، اس میں بتادیا گیا کہ ٹوری پارٹی کو 368، لیبر پارٹی کو 191، اسکاٹش نیشنل پارٹی کو 55اور لبرل ڈیموکریٹس کو 3سیٹیں ملیں گی۔ حقیقی نتائج کے مطابق کنزر ویٹو کو 3کم، لیبر کو 13زیادہ، اسکاٹش نیشنل پارٹی کو 7کم اور لیبرل ڈیمو کریٹکس کو 2کم ملیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے سروے کتنے درست اور دیانت داری پر مبنی ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کی 650 نشستوں کے سروے میں غلطی کا مارجن اتنا کم ہونا ناقابل یقین حد تک تعجب کا باعث ہے، ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، اگر دنیا ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو اس کے اسباب ہمارے نظام میں موجود ہیں کہ ہماے کوئی بھی قومی انتخابات متفق علیہ نہیں ہوتے۔
بریگزٹ کے مسئلے پر لیبر پارٹی گومگو کا شکار رہی اور قوم کو واضح موقف نہ دے سکی، غالباً ان کا خیال تھا کہ بریگزٹ موافق اور مخالف دونوں طرف کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کو ہم اپنی طرف مائل کرلیں گے اور بعد میں نئے ریفرنڈم کی طرف ایک نئے پلان کے ساتھ جائیں گے، لیکن تشکیک یقین کا نعم البدل نہیں ہوسکتی، کیونکہ لیبر پارٹی کے مقابل کنزر ویٹو پارٹی کا دو ٹوک نعرہ تھا: ’’Get Brexit Done‘‘ اور یہ نعرہ کام کرگیا۔
لیبر پارٹی کی شکست کا دوسرا اہم سبب جیرمی کوربن کی ذات ہے، وہ روایتی سوشلسٹ نظریات کے حامل ہیں، امن وانصاف کی ہر مہم میں ورکنگ کلاس کی نمائندگی کی ہے، جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم استعمال کے حوالے سے اُن کی پالیسی میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہا، ظاہر ہے کہ صہیونی یورپ اور شمالی امریکا میں حکومتی پالیسیوں اور قومی انتخابات پر اثر انداز ہونے والی ایک موثر قوت ہیں، امریکی صدر ٹرمپ نے تمام انسانی اقدار اور عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کر کے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ یروشلم میں منتقل کیا، بورس جانسن نے برقع پوش مسلم خواتین پر ’’نقاب پوش ڈاکو‘‘ اور ’’لیٹر بکس‘‘ کی پھبتی کسی، وہ اپنی پارٹی میں اسلام کے خلاف نفرت کے رویے کو برداشت کرتا ہے،
باقی صفحہ7نمبر1
مفتی منیب الرحمن
اس لیے وہ سفید فام نسل پرستوں اور انتہا پسندوں میں مقبول ہے۔ وہ اپنی قوم کے لیے ایک مسیحا بن کر سامنے آیا ہے، مگر ہے ناقابل اعتبار، وقت بتائے گا کہ وہ اپنے وعدوں پر کس حد تک پورا اترتا ہے۔
برطانیہ کے لیے بریگزٹ میں سب سے بڑی رکاوٹ برطانیہ اور یورپی یونین میں ’’بیک اسٹاپ‘‘ کا مسئلہ رہا ہے، جس کا حل ماضی میں ٹرسامے اور بورس جانسن بھی پیش نہیں کرسکے۔ ذرا سی بے تدبیری شمالی آئرلینڈ میں علٰیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے سکتی ہے، یعنی Great Britain کو بچانا بڑا مسئلہ ہے، ورنہ پھر انگلینڈ کا جزیرہ باقی رہ جائے گا۔ اسکاٹ لینڈ میں نیشلسٹ پارٹی غالب اکثریت حاصل کرچکی ہے۔ شمالی آئرلینڈ کے نیشلسٹ اور اسکاٹش نیشلسٹ یورپین یونین سے خروج کے حامی نہیں ہیں، لہٰذا بریگزٹ کا فیصلہ پارلیمانی روایات کے مطابق یقینا اکثریتی فیصلہ ہوگا، لیکن قوم کے تمام طبقات کے لیے یکساں طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔ مسلم نمائندوں نے یہ اچھا کیا کہ مین اسٹریم میں شامل ہوکر انتخابات میں حصہ لیا اور قریباً ڈیڑھ درجن نشستوں پر کامیاب ہوئے کہ کم از کم پارلیمنٹ میں نمائندگی تو ملے۔ مسلمانوں کے اہل فکر ونظر کو سوچنا ہوگا کہ مستقبل میں اپنی دینی اقدار کے تحفظ کے لیے حکمت عملی کیا ہوگی اور اپنے آپ کو جدید حالات کے مطابق کیسے ڈھالیں گے۔