افغانستان میں مقیم جاپانی شہری ’’ناکا مورا‘‘ کے ہدفی قتل جیسے واقعات طالبان کے خلاف واشنگٹن، ان کی ز یر دست و کفالت کابل رجیم یا وہاں موجود بھارتی لابی استعمال کرنے سے فرق پڑنے والا نہیں۔ عقلِ سلیم رکھنے والے باخبر لوگ اور دنیا اب افغانستان کے حالات اور طالبان کی تحریک کے اعلیٰ و جائز مقاصد و اہداف سے آگاہ ہوچکی ہے۔ خود طالبان ان بے سروپا ابلاغی پروپیگنڈے سے مرعوب ہوئے ہیں نہ ایک لمحہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے ہیں۔ یہ تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُلٹی زقند لگا کر وقت کا ضیاع کیا۔ اور غیر ضروری برہمی دکھا کر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے لیے 5ستمبر 2019ء کو کابل میں ناٹو قافلے پر فدائی حملے کو بہانا بنایا گیا جس میں ایک امریکی اور رومانیہ کے ایک سپاہی سمیت دس افراد جان سے چلے گئے تھے یعنی اکثریت کابل انتظامیہ کے خصوصی دستے سے تھے۔ ظاہر ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ بندی نہ تھی۔ اور یقینا اس سے کئی زیادہ حملے امریکی و ناٹو افواج افغانستان کے مختلف مقامات پر کر کے طالبان اور کئی افغان شہریوں کو نشانہ بنا چکی تھیں۔ بلا شبہ قابض خارجی افواج اب بھی حملوں سے گریزاں نہیں ہیں۔ تو پھر افغان کیسے قابضین کے خلاف اپنی کارروائی روکیں گے۔ گویا ٹرمپ نے وقت ضائع کیا، حالاںکہ ان کے اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے ہوچکا تھا۔ نیز اُنہی دنوں طالبان کی سیاسی قیادت کی امریکی صدر کے کیمپ آفس، کیمپ ڈیوڈ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملا قات بھی طے تھی۔ بہر حال طالبان اس عرصہ بھی غیر ملکیوں کے خلاف
حربی و سیاسی مزاحمت کے ساتھ سفارت کاری کے میدان میں بھی متحرک رہے ہیں۔ سترہ ستمبر کو تہران پھر ماسکو، 22ستمبر کو بیجنگ وفد گیا۔ وہاں افغانستان کے لیے چین کے خصوسی نمائندے ’’ڈین شیجو‘‘ سے ملاقات کی۔ چین کے شہر شنگھائی کا دورہ بھی کیا۔ 3اکتوبر کو پاکستان کا دورہ کیا۔ 28 نومبر 2019ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت ہی محتاط و پُر اسرار طور افغانستان کے بگرام فوجی اڈے پہنچ گئے۔ اس دورے کاکابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کو بھی علم نہ تھا۔ اشرف غنی سورہے تھے کہ انہیں امریکی کمانڈر نے فون پر مطلع کیا کہ ایک اہم شخصیت بگرام اڈے پر ان سے ملاقات کرنا چاہتی ہے یعنی جب وہ بگرام فوجی اڈے پہنچے تو انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وہاں موجود پایا۔ گویا امریکا کے قومی تہوار یوم تشکر (Thanks Giving) کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی قوم اور افواج کو مذاکرات کی دوبارہ بحالی کا عندیہ دیا۔ جس کے بعد 7دسمبر 2019ء کو دوحہ میں مذاکرات کی بیٹھک دوبارہ سج گئی۔ افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان وفد سے ملاقات کی۔ یعنی بات چیت کا آغاز وہیں سے ہوا جہاں ختم ہوا تھا۔ قطر کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی المعروف ملا بردار ہیں۔ ان کے ساتھ ٹیم میں مولوی محمد نبی عمری، عبدالحق وثیق، ملا فاضل، مولوی خیر اللہ خیر خواہ، مولوی مطیع الحق خالص، مولوی امیر خان متقی، ملا عبدالسلام حنفی، ضیاء الرحمان مدنی، شیخ شہاب الدین دلاور، شیخ عبدالرسول، نبراس الحق عزیز شامل ہیں۔ افغانستان کے معروف حریت پسند رہنما مولوی جلال الدین حقانی کا بیٹا انس حقانی بھی قطر ٹیم کا حصہ بن گئے۔ جنہیں طالبان کی قید میں کابل یونیورسٹی کے ایک امریکی پروفیسر ’’کیون کنگ‘‘ اور آسٹریلوی پروفیسر ’’ٹموتھی ویکس‘‘ کی رہائی کے بدلے 19 نومبر کو بگرام جیل سے رہا کیا گیا۔
طالبان امریکا مذاکرات کا منطقی نتیجہ پر پہنچنا یقینی ہے۔ یہ لمحہ کابل رجیم اور بھارت کے لیے سیاہ ہوگا۔ جس کے بعد ان کے لیے مزید گنجائش نہیں ر ہے گی۔ خوشہ چینوں کے منفی، سازشی اور تخریبی حربے لاحاصل ثابت ہو رہے ہیں۔ اس ذیل میں پچھلے دنوں (3دسمبر 2019) کو افغانستان کے صوبے ننگر ہار کے شہر جلال آباد میں جاپانی شہری ڈاکٹر ناکا مورا کا پانچ افغان باشندوں سمیت بہیمانہ قتل ہوا۔ یہ شخص 1984ء سے افغان عوام کی خدمت کرتا چلا آرہا تھا۔ پاکستان کے افغان مہاجر کیمپوں میں کوڑھ کی بیماری میں مبتلا لوگوں کا علاج کیا۔ افغانستان کے اندر زراعت کی بہتری اور دوسرے رفاعی کاموں میں سرگرم تھا۔ طالبان بارے بہت اچھی رائے رکھتے تھے۔ امریکی حملے کے مخالف تھے۔ حزب اسلامی افغانستان نے ’’قتل ذلیل حرکت، افغانی غیرت کے منافی عمل اور قرار دیا کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو بے گانوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ کام ایک شریف، باوقار، بایمان، مہمان نواز اور احسان مند افغان کا نہیں ہو سکتا‘‘۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے فوری اس الزام کو رد کیا۔ طالبان ان کی افغانستان میں تعمیر نو کے لیے خدمات اور ان سے تعلقات کے معترف ہیں۔ بلکہ 7دسمبر 2019ء کو مزید وضاحت کی کہ ’’وہ ان تمام رفاعی اداروں کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، جن کا مشن افغان مظلوم عوام کے ساتھ تعاون اور ان کی خدمت کرنا ہے۔ اور فلاحی اداروں کے لیے باقاعدہ ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا ہے جو ان رفاعی اداروں کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ تاکہ ان کے ذریعے اپنے عوام کی خدمت کرسکیں جو ممالک، ادارے اور شخصیات بلا عوض اور بغیر کسی غرض کے افغان عوام کے ساتھ تعاون کررہی ہیں، نہ صرف حمایت بلکہ حفاظت بھی کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر ’’ناکامورا‘‘ کے قتل کا سوال طالبان نے کابل انتظامیہ کے سامنے اُٹھایا ہے۔ دراصل واقعہ کے لیے جوابدہ بھی کابل انتظامیہ ہے۔ کیوں کہ دو گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے ڈاکٹر ناکامورا کو کابل رجیم کی سیکورٹی اورر انٹیلی جنس اہلکاروں کے قریب ہی حملہ کیا۔ حیرت ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سامراج نواز سیاسی، لکھاری، ادیب و دانشور حلقوں نے بھی اپنے امریکی و بھارتی مربین کی رضا و خوشنودی کی خاطر طالبان کو مورد الزام ٹھیرانے کی مکروہ سعی کی۔ گویا ان خوشہ چینوںکے لغو پروپیگنڈے کا یہ وار بھی خطا ہوگیا۔ یقینا طالبان امریکا مذاکرات کی بحالی نے سامراج کے ان کاسہ لیسوں کے دن رات کا سکون غارت کردیا ہوگا۔