فیصلے کب تک محفوظ رکھیں گے؟

138

سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ ، نثار مورائی اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ جاری کرنے کے بارے میں ایک مرتبہ پھر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔ سانحہ بلدیہ انسانیت کے نام پر بدنما داغ ہے جس میں کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری میں کام کرنے والے ڈھائی سو سے زاید بے گناہ افراد کو گیٹ کے دروازے بند کرکے گن پاؤڈر سے آگ لگا کر زندہ جلادیا گیا ۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سات برس گزرنے کے باوجود ابھی تک اس خونیں واقعے کے ذمہ داروں کو سزا نہیں دی جاسکی ہے ۔ اس میں سرکاری تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری وکلا بھی برابر کے ذمہ دار ہیں کہ اس سانحے کے تمام مجرم ہر قسم کی سزا سے دور ہیں ۔ یہ واقعہ جتنا خوفناک تھا ، اس کا کیس اتنا ہی آسان تھا ۔ تمام ہی مجرموں کی نشاندہی ہوچکی ہے ، ان میں سے کچھ گرفتار بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف ہر جرم کا اقرار بھی کیا ہے بلکہ اپنے سارے ہی شریک مجرموں کی نشاندہی بھی کردی ہے ۔ اس کے باوجود اتنے حساس کیس کا اب تک فیصلہ نہ ہونا لمحہ فکر ہے ۔ اس کیس میں سرکاری بے حسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ جان سے گئے ، ان کی امداد حکومت خود تو کیا کرتی ، جرمنی سے انشورنس کی جو رقم آئی ہے ، سرکاری کارپرداز اسے بھی مرحومین کے ورثاء کو دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ رقم حکومت کی نہیں ہے جو وہ دبا کر بیٹھی ہوئی ہے اور اس پر سود کھارہی ہے ۔نہ صرف جرمنی سے آئی ہوئی انشورنس کی رقم کو فوری طور پر مرحومین کے ورثا میں تقسیم کیا جائے اور اس پر اب تک جو سود آیا ہے ، وہ بھی مرحومین کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے ۔ ایسے ہی واقعات بتاتے ہیں کہ حکومت کتنی انسان دوست اور ذمہ دار ہے ۔ سانحہ بلدیہ اور سانحہ مئی جیسے واقعات نے حکومت ، تحقیقاتی ایجنسیوں سمیت ہر ادارے کو بے نقاب کردیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ بلدیہ کے واقعے کے مجرموں کے ساتھ ساتھ ان افراد کوبھی کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے جو معاملات کو طول دے کر مجرموں کو آسانیاں فراہم کررہے ہیں اور شہادتیں ضائع کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ عملی طور پر یہ سارے سہولت کار بھی مجرموں کے ساتھی ہیں ۔ اگر ان سہولت کاروں کو بھی سزا دے دی جائے تو پھر آئندہ کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ مجرموں کا یوں علی الاعلان ساتھ دے ۔ اسی طرح نثار مورائی اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ بھی فوری طور پر عوام کے سامنے لائی جائے۔ عزیر بلوچ ہی اب واحد زندہ شہادت رہ گئی ہے جس کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچا جاسکتا ہے ۔اسی طرح نثار مورائی کی جے آئی ٹی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں ہونے والی بھاری کرپشن میں بلاول ہاؤس کس طرح اور کس حد تک ملوث ہے۔