بھارتی جارحیت اور پاکستان کی بے فکری

200

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہرزہ سرائی کی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی آزاد کشمیر کوباقاعدہ بھارت میں ضم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جب ایسا ہوگا تو پوری دنیا دیکھ لے گی ۔ پاکستان نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ کشمیر پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے ۔ کنٹرول لائن کے دورے کے موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ فوج مادر وطن کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے اور ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔دیکھنے میں تو بھارت اور پاکستان دونوں کا بیانیہ نیا نہیں ہے ۔ مودی پہلے دن ہی سے اس کا اعلان کررہا ہے کہ وہ کشمیر کو بھارت میں باقاعدہ ضم کرلے گا اور پاکستان کی طرف سے ہر مرتبہ یہی جواب دیا جاتا ہے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ حقیقی صورتحال میں بس فرق اتنا ہے کہ بھارت جو کچھ کہتا رہا ہے ، اس پر عمل کر گزرا ہے اور پاکستان کے پاس وہی جواب ہے کہ اب کی مار تو بتاؤں۔ مودی کی گزشتہ انتخابی مہم کا نعرہ ہی کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا تھا اور انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی نے سب سے پہلا کام یہی کیا ۔ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم اٹھایا گیا تاہم اس سے قبل ہی اس بارے میں پوری دنیا آگاہ تھی کہ مودی کیا کرنے جارہا ہے مگر پاکستان میں نہ تو 5 اگست سے قبل کوئی فکر کی بات نظر آئی اور نہ بعد میں کوئی سرگرمی دیکھنے میں آئی ۔ سقوط بنگال ، سقوط کشمیر کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بھارت جو کچھ کہہ رہا ہے ، اس پر جلد بدیر کچھ نہ کچھ کر بھی گزرے گا ۔ ان دونوں سانحات کو دیکھ کر پاکستان کے بارے میں بھی پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ یہاں سے جنگ بہت بری چیز ہے جیسا ہی جواب بھارت کی خدمت میں پیش کردیا جائے گا ۔ پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن بھارت ہی ہے ۔ پہلے دن سے لے کر اب تک ہر محاذ پر بھارت نے کوئی موقع ایسا نہیں جانے دیا جس میں پاکستان کو نقصان پہنچایا جاسکے ۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کو سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہونے کے لیے بھرپور امداد و تعاون بھی پیش کیا اور اپنا ووٹ بھی بھارت کے حق میں ڈالا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے ، یہ گزشتہ 40 برسوں سے مسلسل حالت جنگ میں ہے اور دنیا کی دو سپر طاقتوں کے سامنے اپنے بازو آزماچکی ہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہتھیار ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم اپنی فوج کی پشت پر بھی ہے اور فرنٹ لائن پر جا کر جام شہادت نوش کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود جب سقوط کشمیر جیسا سانحہ رونما ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ نہ بھی ہوتا تو تب بھی یہی صورتحال ہوتی ، جو اس وقت ہے ۔ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اس کے لیے عملی اقدامات شروع کیے تھے ، اسی وقت اگر بھارت کو موثر تنبیہ کردی جاتی تو صورتحال ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے ۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کو چھوٹ اوور دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر مسلسل 5 اگست سے لاک ڈاؤن کی صورت میں ہے بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے بعد سے پورے بھارت میں بڑے پیمانے پر حراستی مراکز کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے جن میں ان مسلمانوں کو قید کیا جائے گا جنہیں بھارتی شہریت سے محض اس لیے محروم کردیا جائے گا کہ وہ مسلمان ہیں ۔بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلور میں ایک حراستی مرکز تعمیر بھی کیا جاچکا ہے جس کا افتتاح جنوری میں کردیا جائے گا ۔ اسی طرح کرناٹک میں ہاسٹل کی ایک خالی عمارت کو حراستی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ غیر قانونی تارکین وطن کے نام پر مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کردی گئی ہے ۔ پاکستانی قوم کی حقیقی ترجمانی صرف جماعت اسلامی کررہی ہے جس پر وہ تحسین کی مستحق ہے ۔ اتوار کواسلام آباد میں جماعت اسلامی پاکستان کے تحت کشمیریوں کے حق میں زبردست مارچ کیا گیا ۔ پیر کو اسلامی جمعیت طلبہ کے یوم تاسیس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ایک مرتبہ پھر اس امر کا اعادہ کیا کہ کشمیری پاکستانی ہیں اور 22 کروڑ پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ عمران خان نیازی اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں ، بہتر ہوگا کہ وہ گفتار کے غازی بننے کے بجائے مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور بھارت میں مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں کے جنون سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر پاکستان بھارت کو ماضی جیسا ہی جواب دیتا رہا تو خاکم بدہن پھر امیت شاہ کی ہرزہ سرائی محض دھمکی یا دیوانے کی بڑ نہیں رہے گی۔