ہمیں کوئی فکر ہی نہیں ہے کہ جان سکیں کہ ہمارے اسلاف کیا تھے، کون تھے اور ہمیں کیا کہہ گئے ہیں؟ ہمیں ضرور یہ جاننا چاہیے کہ اصول، اخلاق، ضابطے اور حقوق وفرائض کی بھی کوئی اہمیت ہے ۔ جمہوری لحاظ سے مہذب ہر معاشرے میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ ریاست کے بنیادی ستون قرار دیے جاتے ہیں اہمیت کے اعتبار سے میڈیا بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے لیکن آئین، جمہوریت کے زریں اصولوں کے تابع رہ کر ان تینوں کا پوسٹ مارٹم بہت ضروری ہے اگر ہم عدلیہ کی بات کریں تو ہمیں اپنے آئین میں آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ ملتے ہیں، جن کی ایک ایک شق ہمارے لیے رہنمائی کا باعث ہے اور ہمارے گرد ضابطوں کی پابندی کی زنجیر کھینچتی ہے کوئی ایسا شہری جو آئین کے اس آرٹیکل کے معیار پر پورا نہیں اترتا وہ کسی بھی لحاظ سے پارلیمنٹ، ملک کی مقننہ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انتخابات میں کتنے ہیں جو ریٹرننگ آفیسر کی آنکھوں سے بچ کر پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے اہل قرار پاتے ہیں یا انہیں اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست اور پارلیمنٹ میں ایک سو سے زائد ایسے افراد ہیں جو ہر انتخاب میں نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں اور ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور ان کی اکثریت سیاسی جماعتوں میں قبول کر لی جاتی ہے یہی لوگ ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کرکے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں عدلیہ کی سطح پر ان کے لیے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی روشنی میں چیک اینڈ بیلنس ایک بہت بڑا سوال ہے کیا کبھی عدلیہ نے اس بارے میں غورو فکر کیا؟ پارلیمنٹ جمہوری معاشرے کا ایک دوسرا بڑا ستون ہے، دنیا بھر کی پارلیمنٹ میں کیا ہوتا ہے اس پر ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو اپنے ملک کی پارلیمنٹ سے سوال کرنا ہے، ہمارے آئین میں آرٹیکل اکتیس ہے، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی، اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت کوشش کرے گی کہ
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاق معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور
(ج) زکوۃ عشر، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
اب جائزہ لیتے ہیں کہ حالیہ پارلیمنٹ میں کتنے ارکان پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے اس آرٹیکل پر عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ میں نجی بل، قرارداد، تحریک پیش کی ہو، کتنے ہیں؟ کیا ان میں کوئی ایک بھی ایسا رکن ہے جو ہر انتخاب میں پارٹیاں بدل کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے جب کوئی امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرتا ہے تو سابق منتخب رکن ہونے کی حیثیت سے اسے پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ بتائے کہ اس نے رکن پارلیمنٹ کے طور پر آئین کے مطابق معاشرے کی تشکیل کے لیے کیا کام کیا ہے؟ یہ سوال پوچھنا ہماری عدلیہ کا کام ہے، مگر کسی نے آج تک نہیں پوچھا،
اب بات کرلیتے ہیں چوتھے ستون میڈیا کی، کتنے اخبارات ہیں جو آئین کے آرٹیکل اکتیس کی پابندی کر رہے ہیں کیا خواتین کو بطور اشتہار دکھانا اس آرٹیکل کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ کیا غیر اخلاقی اشتہارات اور بے ہودہ تصاویر شائع کرنا اس آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں؟ لیکن کبھی کسی رکن پارلیمنٹ نے اس پر توجہ دی؟ یا کسی رکن پارلیمنٹ نے کوئی ایسی قرارداد، نجی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جواب نفی میں ملے گا۔12مارچ 1949 کو ’قراردادِ مقاصد، کے ذریعے اپنے ربّ سے یہ ایک عہد کیا گیا تھا جس کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے فقط عوام کے چنے ہوئے نمائندے بروئے کار لانے کے حقدار ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو اپنی اِنفرادی اور اِجتماعی زندگی میں قرآن و سنت کے احکام بجا لانے کے قابل بنایا جائے گا۔ تیسرا یہ کہ غیر مسلم اقلیتیں اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی تہذیب و معاشرت کو فروغ دینے میں پوری طرح آزاد ہوں گی۔ چوتھا یہ کہ تمام شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہوں گے اور اُنہیں انصاف مہیا کیا جائے گا۔ پانچواں عہد یہ کہ عدلیہ آزاد ہو گی، اظہار اور اِجتماع کی مکمل آزادی ہو گی اور جمہوری رویوں کی پابندی کی جائے گی یہ سیاسی لحاظ سے ایک عہدنامہ تھا اور ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی حوادث ہیں کہ ہمارا مسلسل پیچھا کر رہے ہیں، ہمارا تعاقب کر رہے ہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ڈاکٹر ہفتوں ہڑتال پر چلے جاتے ہیں، طلبہ تعلیم گاہوں میں قتل ہوجاتے ہیں ہر طرف ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے مظاہر ہیں، ماتحت عدلیہ میں سائل خوار ہو رہے ہوتے ہیں، ہماری کچہریاں بھری پڑی ہیں کہ ان لوگوں سے جنہیں جعلی کاغذات مل جاتے ہیں اور وہ معصوم لوگوں کے پلاٹوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور افسوس کہ انہیں ماتحت عدلیہ سے حکم امتناع بھی جاتے ہیں ہم نے قراردادِ مقاصد میں اپنے رب اور اَپنے عوام سے جو عہد باندھا تھا، اُس پر عمل نہیں کیا ہماری حکمران اَشرافیہ نے اقتدار کو ایک مقدس امانت سمجھنے کے بجائے اسے عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اس مخصوص طبقے اور اس ملک میں قبضہ مافیا کو عدلیہ کی معاونت بھی حاصل رہی، اسی لیے تو اس ملک میں جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس کا کلچر حاوی ہوتا جارہا ہے اگر عدلیہ آئین کے مطابق انصاف نہیں دے سکتی تو مراعات کس کام کی لے رہی ہے؟