عبدالرب احمد
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستان چھوٹا بچہ تھا۔ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا اور کراچی کی سڑکیں دُھلا کرتی تھیں۔ اُس وقت کراچی میں محمد علی ٹرامو ے کمپنی کے نام سے ’’ٹرام‘‘ چلا کرتی تھی جو عام شہریوں کے لیے آمدورفت کا انتہائی سستا ذریعہ تھا۔ کتنا سستا، اِس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ صدر سے کینٹ اسٹیشن تک کا کرایہ عشاریہ صفر چھے روپے تھا۔ (0.06 روپے)۔ شہر کی اہم شاہراہوں پر سڑک کے ہم سطح پٹڑی بچھی ہوئی تھی جن شاہراہوں پر یک طرفہ ٹریفک تھا وہاں پٹڑی سڑک کے بیچ میں ہونے کے باوجود ٹرام مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کے درمیان سے، ٹکرائے بغیر آرام سے گزر جاتی۔ ٹرام اپنی پٹڑی پر صدر سے بندرروڈ، صدر سے کینٹ اسٹیشن، صدر سے سولجر بازار، بندر روڈ سے لی مارکیٹ، چاکیواڑہ، لارنس روڈ، چڑیا گھر اور کیماڑی تک جاتی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی کی پہچان بڑی شاندار سواری گھوڑا گاڑی اور مال برداری کے لیے اونٹ گاڑی ہوا کرتی تھیں۔ کراچی میں دو افراد کے بیٹھنے کے لیے ایک سواری سائیکل رکشہ بھی ہوتا تھا۔ اُس وقت کوئی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کے سڑک پر نہیں آسکتی تھی، حتیٰ کہ گدھا گاڑی پر بھی نمبر پلیٹ ضروری تھی۔ شہر بھر میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے گھوڑا گاڑیوں کے کھڑا ہونے کے لیے پکے، سایہ دار اسٹینڈ بنے ہوئے تھے اور قریب ہی گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں کے لیے خاکی پتھر کے بنے ہوئے مضبوط پیائو، پانی سے بھرے رہتے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ کوئی سائیکل سوار بھی رونگ وے (wrong way) نہیں جاسکتا تھا۔ چوراہے پر پولیس اہلکار کے اشارے کی خلاف ورزی کو تو پولیس اہلکار اپنی سخت بے عزتی اور توہین سمجھتا تھا۔ مغرب کے بعد کوئی گدھا گاڑی یا سائیکل بھی بغیر لائٹ جلائے سڑک پر نہیں چل سکتی تھی۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پورے شہر میں نہایت کشادہ برساتی نالوں کا ایک سلسلہ تھا۔ یہ نالے برسات کا پانی سمندر تک پہنچانے کا ذریعہ تھے۔ عام دنوں میں نالے خشک اور اتنے صاف رہتے کہ بچے اور نوجوان ان میں اُتر کر نالوں کے پکے فرش پر کرکٹ وغیرہ کھیلا کرتے۔ بعد میں ان نالوں پر پکی چھت ڈال کر اِن پر دکانیں یا گاڑیوں کے لیے پارکنگ کی جگہ بنادی گئی۔ ان ہی نالوں میں سے ایک پر آج بھی کراچی کا اردو بازار موجود ہے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کراچی کا موجودہ سینٹرل جیل شہر سے باہر تھا، کراچی کا سابقہ ریس کورس شہر سے اتنا باہر تھا کہ اِس سے آگے کوئی باقاعدہ آبادی نہ تھی۔ ہوائی اڈا شہر سے بہت دور تھا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے ایک پتلی سی سڑک تھی (موجودہ شارع فیصل) جس کے دونوں طرف ویرانے سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ تپ دق کے متعّدی مرض کے علاج کے لیے اوجھا سَینا ٹوریم نامی اسپتال شہر سے بہت دور بنایا گیا تھا۔ یہ سب جگہیں اب شہر کے اندر ہیں کیوں کہ کراچی اب ’’آپے‘‘ سے باہر ہوچکا ہے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کراچی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کیے ہوئے ایرانی باشندوں نے شہر کی نمایاں جگہوں پر بڑے اور کشادہ ریستورانز قائم کیے ہوئے تھے۔ اس وقت ٹی وی، موبائل فون یا انٹرنیٹ وغیرہ نہیں تھے۔ صرف ریڈیو سنا جاتا تھا اور ریڈیو بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔ اِن ایرانی ریستورانز میں ریڈیو ضرور ہوتا تھا۔ ریڈیو سے فلمی گانوں کے پروگرام کے اوقات میں یہ ریستورانز بھرے رہتے۔ ان ریستورانز میں کھانے کے اوقات کے علاوہ ہر وقت تیار چائے دستیاب ہوتی۔ گاہکوں کے لیے پینے کا پانی گلاسوں میں پہلے سے ہر میز پر موجود رہتا۔ گاہک کھانے یا چائے پینے کے بعد ادائیگی کے لیے جب کیش کائونٹر کا رُخ کرتا تو بیرا اونچی آواز میں کیشیر کو بتاتا کہ گاہک نے کیا کھایا پیا ہے اور اُس کو کتنے پیسے ادا کرنے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ کسی کو صرف پانی پینا ہوتا تو وہ میز پر سے پانی کا گلاس اُٹھا کر پانی پیتا اور چلا جاتا۔ یہ انہی دنوںکا لطیفہ ہے کہ: ایک آدمی صرف پانی پی کر واپس جارہا تھا کہ اُس کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا۔ وہ آدمی کیش کائونٹر کے قریب پہنچا تو بیرے نے آواز لگائی: کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔ اُن دنوں عام طور پر ایک گلاس کی قیمت ایک روپے سے کم ہی ہوتی تھی۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کلو نہیں سیر ہوتا تھا، میٹر نہیں گز ہوتا تھا۔ روپے، آنے، پائی کا نظام تھا۔ ایک روپے میں سو پیسے نہیں، سولہ آنے یا چونسٹھ پیسے ہوتے تھے، یعنی ایک آنے میں چار پیسے۔ پیسہ تانبے کا اور آج کے ایک روپے کے سکے سے بڑا ہوتا تھا۔ اُن دنوں کراچی میں ایک روپے کا چار سیر آٹا ٹھیلوں پر بکتا تھا اور ایک روپے کی سولہ تندوری روٹیاں ملتی تھیں۔ اُن دنوں سو روپے کا نوٹ سب سے بڑا نوٹ ہوتا تھا۔ اِس نوٹ کا اگر کھلا چاہیے ہو تو مشکل سے ملتا اور کھلا لینے اور دینے والا دونوں احتیاطاً دو مرتبہ نوٹ گنتے۔ کسی بچے کے ہاتھ میں سو کا نوٹ دے کر کچھ سودا منگوانا عقل کی بات نہ تھی۔
پاکستانی کرنسی کا نام ’’روپیہ‘‘ ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ کچھ وقت پہلے تک جو ایک روپے مالیت کا نوٹ تھا وہ حکومت پاکستان کا جاری کردہ تھا، اِسی لیے اُس پر سیکرٹری وزارتِ مالیات کے دستخط ہوتے تھے، جب کہ باقی تمام بڑے نوٹ چوں کہ کرنسی نہیں بلکہ وعدے کے نوٹ ہوتے ہیں اس لیے ان پر گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخط ہوتے ہیں اور ہر نوٹ پر اُس کی مالیت کے مطابق ایک عبارت لکھی ہوتی ہے۔ مثلاً سو روپے کے نوٹ پر لکھا ہوتا ہے ’’بینک دولت پاکستان ایک سو روپیہ حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا، حکومتِ پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا‘‘۔ اب چوں کہ ایک روپے مالیت کا نوٹ بند کردیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کا کوئی کرنسی نوٹ نہیں ہے‘ بس ایک روپے کا سکہ ہی پاکستان کی کرنسی ہوا؟ یہ بھی انہی دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت سرکاری طور پر چار روپے پچھتر پیسے (4.75 روپے) مقرر تھی اور اس کی قیمت میں کوئی اُتار چڑھائو نہ ہوتا تھا۔ اِسی لیے اسکول کے طلبہ کے لیے ریاضی کی کتب میں امریکی ڈالر کی یہ شرحِ تبادلہ درج ہوتی تھی۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے جب ریڈیو پاکستان کے اُس وقت کے ڈائریکٹر زیڈ اے بخاری (مرحوم) پندرہ منٹ کا ایک پروگرام خود کیا کرتے تھے۔ یہ پروگرام طنز و مزاح کے ساتھ معلوماتی بھی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ ہر ماہ چاند کی شروع تاریخوں میں جب چاند بڑھ رہا ہوتا ہے تو اُس کا رُخ بائیں جانب ہوتا ہے اور گھٹتے ہوئے چاند کا رُخ دائیں جانب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سکوں اور نوٹوں پر جو چاند بنا ہوتا ہے اُس کا رُخ بائیں جانب ہوتا ہے جو ایک مستحکم معیشت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اب نہیں، اب ہمارے نوٹوں پر چاند کا رُخ دائیں جانب کردیا گیا ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہے کہ جن قابل اور بااختیار لوگوں نے موجودہ نوٹوں کے ڈیزائن کی منظوری دی ان کے دور میں کوئی زیڈ اے بخاری نہیں آئے ہوں گے یا پھر ان بااختیار لوگوں کو اندازہ تھا کہ آئندہ ملکی معیشت جس رُخ پر جانی ہے اُس کے لیے چاند کا رُخ بھی بدلنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ان مقتدر لوگوں نے نہ تو قومی پرچم کو اس کے اصل ہرے رنگ میں چھاپنا ضروری سمجھا اور نہ ہی پاکستانی پرچم کا سفید حصہ، جو اقلیتوں کی نمائندگی یا ان کے حقوق کی علامت کے طور پر رکھا گیا تھا، اُسے پاکستانی جھنڈے کے لازمی جز کے طور پر دکھانا ضروری خیال کیا۔ نہ معلوم کیوں؟