وزیر اعلیٰ سندھ کی پولیس کو ہدایت

110

وزیر اعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ نے پولیس کے سربراہ کو حکم دیا ہے کہ خواہ کچھ کریں، کراچی کو اسٹریٹ کرائمز سے پاک ہونا چاہیے۔ منگل کو صوبائی کابینہ کے اجلاس میں انہوں نے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں جانتا آپ کو کیا کرنا ہے، سمری کورٹ بنائیں یا کوئی اور اقدام کریں کراچی اسٹریٹ کرائم سے پاک ہونا چاہیے اور پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہونا چاہیے۔ یہ دوسرا کام بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے کیوں کہ پولیس نے یہ بے اعتمادی کئی عشروں کی محنت سے پیدا کی ہے۔ بہرحال وزیر اعلیٰ سندھ کی کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر تشویش ہی خوش آئند ہے۔ وہ اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ حکم جاری کردیں۔ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز پر بڑی حد تک قابو پالیا گیاہے۔ انہیں یہی کہنا چاہیے تھا لیکن روز مرہ کی صورت حال کچھ اور بتاتی ہے۔ صورت حال کو بہتر بنانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ پر جرائم کی خبریں نشراور شائع کرنے پر پابندی لگا دی جائے، کچھ عرب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔ یاد ہوگا کہ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ صرف چھ ماہ تک خبروں پر پابندی لگا دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کا اطلاق صوبہ سندھ پر بھی ہوسکتا ہے جہاں صورت حال یہ ہے کہ خود پولیس اہلکار و افسران جرائم میں ملوث ہیں۔ بدھ ہی کے اخبار کی خبر ہے کہ ’’ لیاری میں پولیس کی سرپرستی میں گٹکے اور منشیات کے اڈے پھر کھلنے لگے۔پولیس کا ’بیٹر‘ اڈے کھولنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرتا ہے‘‘۔ کوئی دن ایسی خبروں سے خالی نہیں ہوتا۔ اسی دن روزنامہ امت کی خبر ہے کہ ’’سینٹرل جیل کراچی میں بیرکیں فروخت ہوتی ہیں اور وی آئی پی بیرکوں کے لیے 5لاکھ تک نرخ مقرر ہیں۔ جیل کی انتظامیہ کا تعلق بھی پولیس سے ہوتا ہے۔ ایسی خبریں بھی آچکی ہیں کہ پولیس افسران اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث ہیں اور پولیس نے نجی ٹارچر سیل بنا رکھے ہیں۔ ناجائز تعمیرات، زمینوں پر قبضے ، زہریلی شراب کی فروخت، کوئی بھی جرم ایسا نہیں ہے جو پولیس کی مدد اور چشم پوشی سے نہ ہوتا ہو۔ ایسی بھیانک صورت حال میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صرف حکم دینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ سمری کورٹ بنانے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکیں گے۔ شہر کراچی میں تو طویل عرصے سے رینجرز بھی تعینات ہے۔ لیکن رہزنی بڑھتی جارہی ہے۔