انوکھا مقدمہ یا انوکھا فیصلہ؟

211

ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ بھی تقریباً چھ ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوگئے۔ انہیں یکم جولائی 2019ء کو ہیروئن رکھنے کے الزام میں انسداد منشیات فورس (اے۔ این۔ ایف) نے گرفتار کیا تھا۔ یہ پورا معاملہ پہلے ہی دن سے مشکوک تھا اور گرفتاری کے وقت انہی کالموں میں شکوک کا اظہار کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ اگر ان پر سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جاتا تو بات سمجھ میں بھی آتی لیکن منشیات فروشی کے الزام میں گرفتاری ہضم نہیں ہوتی۔ اب عدالت عالیہ لاہور سے ان کی ضمانت کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں، اے این ایف کی غلطیاں اور سب سے بڑھ کر عمران خان کے ایک جانباز وفاقی وزیر شہریار آفریدی کے کھوکھلے دعوے ایک بار پھر ذرائع ابلاغ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کی ترجمان محترمہ فردوس عاشق اعوان ہر معاملے میں کود پڑنے اور بیان دینے کی شوقین ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی ہر بات وزیر اعظم کی ترجمانی ہوتی ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں بھی عدالت عالیہ کے اختیارات پر سوال اٹھا دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عدالت کو اس مقدمے میں ضمانت دینے کا اختیار ہی نہیں۔ محترمہ کئی بار توہین عدالت کا ارتکاب کر کے معافی مانگ چکی ہیں چنانچہ وہ اس کی عادی ہوگئی ہیں۔ جب کسی کو چھ ماہ تک حراست میںرکھنے کے باوجود جرم کے ثبوت پیش کیے جائیں نہ ریفرنس دائر کیا جائے تو عدالت کو پورا اختیار ہے کہ ضمانت منظور کرلی جائے۔ فردوس عاشق فرما رہی ہیں کہ یہ لاہور ہائی کورٹ کا انوکھا فیصلہ ہے، منشیات کیس میں ضمانت دے کر نئی مثال قائم کی گئی۔ خصوصی معاون اطلاعات بھی شہریار آفریدی کی زبان بول رہی ہیں کہ ’’ ٹرائل ہوگا تو ثبوت بھی دیں گے، ہیروئن کے پیچھے موجود مافیا کو پیسوں اور وسائل کی کمی نہیں، پہلے جج تعینات نہ ہوسکا، جج آگے تو رانا ثناء کے وکیلوں نے ٹرائل شروع نہیں ہونے دیا‘‘۔ بیان سے ظاہر ہے کہ اطلاعات کی معاون خصوصی کو اطلاعات ہی نہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ٹرائل کب شروع ہوگا؟ کیا مزید دو، چار سال لگیں گے، اگر کوئی ہیروئن مافیا اس معاملے کے پیچھے ہے تو اسے بے نقاب کون کرے گا؟ مقدمے کی سماعت کے لیے جس پہلے جج کو تعینات کیا گیا تھا اس کا تبادلہ کس نے کیا؟ کیا رانا ثناء اللہ نے ۔ نارکوٹکس کے وزیر جناب شہریار آفریدی کہتے ہیں کہ چار جج تبدیل کیے گئے۔ انہیں خدا کو جان دینی ہے، بتائیں کون سے چار جج تبدیل ہوئے؟ یہ بے خبری ہے یا صریحاً غلط بیانی۔ کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ کے وکیلوں نے ٹرائل شروع نہیں کرنے دیا۔کیا وکیل حکومت اور عدالت پر بھاری پڑ رہے تھے؟ اس میں کوئی شبہ تو نہیں کہ رانا ثناء اللہ زیادہ بولنے لگے تھے اور بعض اطلاعات کے مطابق ان کی زباں بندی کا فیصلہ بہت اونچی سطح پر کیا گیا۔ ایف آئی اے کے سربراہ بشیر چیمہ نے بغیر ثبوت کچھ لوگوں کو پکڑنے سے انکار کردیا تھا تو ان کی چھٹی ہوگئی اور یہ کام نیب سے لیا گیا۔ اس پورے ڈرامے میں سب سے زیادہ سبکی وفاقی وزیر شہریار آفریدی کی ہوئی ہے بشرطیکہ وہ محسوس کریں اور اس کے آثار نہیں۔ ان کا مسلسل اصرار ہے کہ انہیں اللہ کو جان دینی ہے۔ کیا یہ انکشاف ہے یا وہ عمران خان کی کابینہ کے نورتنوں میں سے واحد ہیں جو اللہ کو جان دیں گے۔ اس تکرار کی نشاندہی کرنے پر جناب شہریار اب ٹی وی چینلز پر برہم ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر میں نے کسی بے گناہ پر الزام لگایا ہو تو مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہو۔ لیکن وہ اپنی تضاد بیانوں پر غور فرمائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رانا ثناء اللہ کی گاڑی کو 3 ہفتے تک ’’فالو‘‘ کیا گیا۔ اس کی فوٹیجز موجود ہیں۔ یہ فوٹیجز عمران خان کو بھی دکھائے گئے۔ عدالت میں بھی پیش کردیتے تو اچھا تھا۔ تین ہفتے تک گاڑی کا تعاقب کیا گیا تو پورا نیٹ ورک بے نقاب ہوگیا ہوگا۔ سابق وزیر قانون ،ن لیگ پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی اس تعاقب سے بالکل بے خبر رہے اور اپنی گاڑی میں ہیروئن لیے پھرتے رہے۔ ہیروئن کے بارے میں پہلے بتایا گیا یہ 21کلو ہے۔ بعد میں یہ 15کلو رہ گئی۔ ان کی گرفتاری اور گاڑی کی جو فو ٹیج پیش کی گئی اس میں بھی وقت کے بارے میں واضح تضاد ہے۔ رانا ثناء کا کہنا ہے کہ ان کی گاڑی روک کر اے این ایف کے ارکان گاڑی میں بیٹھ گئے اور سیدھے اے این ایف کے دفتر پہنچا دیا گیا۔ تین دن بعد ایف آئی آر درج ہوئی۔ پریس کانفرنس میں شہریار کے ساتھ بیٹھے ہوئے اے این ایف کے افسر نے کوئی فوٹیج ہونے سے انکار کیا۔ اللہ کو جان تو سبھی کو دینی ہے، ان کو بھی جنہوں نے کہا تھا کہ رانا ثناء اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر اندر کروائوں گا۔ رانا ثناء اللہ پر الزام ثابت کرنے میں اگر ناکامی ہوئی تو یہ ناکامی بھی عمران خان کے کھاتے میں جائے گی۔ پتا نہیں ان کو اس کا ادراک ہے بھی یا نہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ایک ملزم چھوٹتا ہے تو تین مزید پکڑ لیے جاتے ہیں۔ اب احسن اقبال جیل میں ہیں جن پر ڈھائی ارب کے منصوبے میں چھ ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ اگر رانا ثناء پر الزام ثابت نہ ہوسکے تو انصاف کا تقاضہ ہے کہ الزام لگانے والوں کو پکڑا جائے ۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا۔ مدینہ کی ریاست میں تو تہمت لگانے کی کڑی سزا تھی۔