حسیب عماد صدیقی
کوالا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کی ایک سے زیادہ درست وجوہات ہو سکتی ہیں اور یقینا یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں کیا گیا ہوگا لیکن اس انتہائی حساس معاملے کو جس بھونڈے انداز میں ہینڈل کیا گیا ہے، یہ تحریک انصاف کی حکومت ہی کا حق تھا۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی تاریخی تقریر نے عالم اسلام کے دل موہ لیے تھے۔ انہوں نے جس انداز میں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی اس نے تمام اسلامی دنیا میں امید کی ایک نئی کرن روشن دی، مسلمانوں کو ایسا لگا کہ انہیں ایک مخلص اور دلیر لیڈر مل گیا ہے لیکن مسلمان عوام کے برعکس مشرق وسطیٰ کے آمروں اور بادشاہوں کو ایک منفی پیغام ملا، انہیں لگا کہ عمران خان کہیں ان کے عوام پر اثر انداز نہ ہو جائے۔ بظاہر عرب دنیا میں حکمران بغیر کسی عوامی مزاحمت کے اطمینان سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں اور اپنے کسی عمل پر عوام کو جواب دہ نہیں۔ لیکن اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا کے دور میں عوام سے کچھ پوشیدہ نہیں۔ عرب دنیا میں عوامی سطح پر ہیجان برپا ہے، اور بہار عرب کا کرشمہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ مصر کے حالات سب کے سامنے ہیں، فوج کے وحشیانہ استعمال کے باوجود جمہوری جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ مصر کی جمہوری حکومت کے خاتمے اور جنرل سیسی کے قتل عام کے پیچھے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خفیہ اور اعلانیہ مدد کسی سے پوشیدہ نہیں، عام عرب عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے جسے فوج کے بے رحمانہ استعمال، پیسے، لالچ اور خفیہ ایجنسیوں کی طاقت سے مصنوعی طور پر دبا دیا گیا ہے۔ عرب دنیا کے تمام آمروں اور بادشاہوں کو اس عوامی بے چینی کا اندازہ ہے اور وہ پتے کے کھڑکنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے لیے عمران خان کی تقریر اور مہاتر محمد اور اردوان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کے لیے کولالمپور سمٹ ایک ڈرائونا خواب تھا۔ ان بادشاہوں کو لگا کہ ایک الگ فورم بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ تنہا ہو سکتے ہیں اور ان کی بے لگام خاندانی حکمرانی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر ان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی بلکہ اندرون خانہ اسرائیل اور انڈیا کی حمایت نے تمام عالم اسلام میں ان حکمرانوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
عمران خان کی شعلہ بیانی نے اردوان اور مہاتر محمد جیسے عظیم لیڈروں میں یہ امید جگا دی کہ عمران خان کے ساتھ مل کر وہ دنیا کے سامنے مسلمانوں کا نیا بیانیہ پیش کر سکتے ہیں، مسلمانوں کے مسائل پر مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے دنیا پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے مادی اور انسانی وسائل کے درست استعمال کے ذریعے انہیں دنیا میں ان کا جائز حق دلوا سکتے ہیں۔ کشمیر و افغانستان سے شام تک مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف موثر آواز اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ عمران خان صرف زبان کے شیر ہیں۔ وہ کسی بھی موضوع پر کسی حکمت عملی اور زمینی حقائق کے بر خلاف گھنٹوں بول سکتے ہیں اور اگلے دن ان تمام باتوں سے 180 درجے کا ٹرن لیکر اسے عظیم لیڈر کی نشانی گردانتے ہیں۔ بیچارے عظیم لیڈر اردوان اور مہاتر محمد پریشان ہیں کہ انہیں پہاڑ پر چڑھا کر عمران خان نے سیڑھی کھینچ لی۔
اندرونی محاذ پر عمران خان کا سحر ان کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا لیکن ان کی پرکشش شخصیت، انگریزی زبان اور لہجے پر عبور، مغربی سماج میں ان کے لیے قبولیت اور اقوام متحدہ میں ان کی شعلہ بیانی نے ساری دنیا پر عموماً اور عالم اسلام پر خصوصاً سحر طاری کر دیا تھا۔ لیکن کولالمپور سمٹ نے ان کی شخصیت کے کھوکھلے پن کو تمام دنیا پر واضح کر دیا۔ اردوان نے عمران خان کے شرکت نہ کرنے پر جو بیان دیا ہے وہ ہماری خارجہ پالیسی کے پرخچے اُڑا نے کے لیے کافی ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی کے افلاطون شاہ محمود قریشی اور ان کی وزارت خارجہ کے نابغے کیا نہیں جانتے تھے کہ اقوام متحدہ میں اردوان اور مہاتر محمد کے ساتھ عمران خان جو مشترکہ چینل اور حکمت عملی کے وعدے کر رہے ہیں وہ قابل عمل نہیں اور اس پر عرب حکمران اور خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کیا رد عمل دیں گے۔ پھر جس بھونڈے انداز میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو منانے کی کوشش کی گئی اور پھر ان کی شٹ اپ کال اور دھمکی پر جس طرح ہتھیار ڈال دیے گئے اس پر جو جگ ہنسائی ہوئی اس کی تمام تر ذمے داری عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ کیا ترکی اور ملیشیا جیسے دوست جنہوں نے کسی دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر ہمارا ساتھ دیا آئندہ ہم پر اعتبار کریں گے۔ عمران خان نے اندرونی محاذ پر جس نالائقی اور بد انتظامی کا ثبوت دیا تھا ابھی ہم اسی کو رو رہے تھے کہ بیرونی محاذ پر یہ نئی افتاد آن پڑی۔ اس نااہل اور شیخی خوری حکومت نے ہر محاذ پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، ہماری خواہش کے باوجود یہ اپنی مدت پوری کرتی نظر نہیںآتی۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔