طلبہ یونین کی بحالی

123

سندھ کابینہ کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی پر مبنی سندھ اسٹوڈنٹ یونین بل 2019 کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی نہ صرف طلبہ یونین کی بحالی کی بازگشت سنی گئی ہے بلکہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی بحث کے بعد اس معاملے کو حتمی شکل دینے کے لیے قائمہ کمیٹی کے حوالے بھی کیاگیا ہے۔ سندھ کابینہ سے منظور ہونے والے زیر بحث بل میں کہا گیا ہے کہ طلبہ یونین کو تعلیمی سرگرمیوں کو روکنے یا طلبہ گروپوں میں نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ طلبہ یونین کے لیے اسلحہ رکھنا، اسلحے کا استعمال یا تعلیمی اداروں میں لانا خلاف قانون ہوگا، طلبہ یونین کا کام تعلیمی ماحول میں بہتر ی، نظم و ضبط پیدا کرنا اور غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا جب کہ اس بل میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ مجوزہ طلبہ یونین 7 سے 11 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ واضح رہے کہ طلبہ یونین کے مسئلے پر اس سے پہلے بھی وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ ملک کی شاید کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو اس کے حق میں نہیں ہے بلکہ اکثر جماعتوں کے انتخابی منشور میں بھی طلبہ یونین کی بحالی کا وعدہ موجود ہے۔ لیکن بد قسمتی سے جب ہماری سیاسی جماعتیں برسراقتدار آ جاتی ہیں تو وہ اپنے وعدوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں لہٰذا ان ہی وعدوں میں ایک اہم وعدہ طلبہ یونین کی بحالی کا بھی ہے۔
طلبہ یونین کی ضرورت و اہمیت اور ہمارے ہاں طلبہ یونین کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے پہلے یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے دنوں نہ صرف ملک گیر سطح پر ہزاروں طلبہ وطالبات سڑکوں پر اپنے پرامن احتجاج کے ذریعے یونین کی بحالی کا مطالبہ کر چکے ہیں بلکہ کچھ عرصہ پہلے طلبہ یونین کی بحالی کا مسئلہ سینیٹ میں بھی اٹھایاجاچکا ہے۔ تاہم جہاں تک طلبہ یونین کی افادیت کا تعلق ہے اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ یہ وہ فورم ہے جہاں سے نہ صرف ملک کو باصلاحیت قیادت ملتی ہے بلکہ اس فورم سے برداشت، ایک دوسرے کی بات سننے، دلائل سے دوسرے کی رائے رد کرنے اور اختیارات کے منصفانہ استعمال جیسی قائدانہ خصوصیات بھی پروان چڑھتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ اکثر ترقی پزیر ممالک میں بھی طلبہ یونین کسی نہ کسی شکل میں قائم ہیں۔ خود ہمارے ہاں بھی جب طلبہ یونین بحال تھیں تو ان کے توسط سے مختلف سیاسی جماعتوں کو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اہل اور نسبتاً دیانتدار قیادت ملتی رہی ہے۔ ماضی میں وطن عزیز پر جب بھی کڑا وقت آیا طلبہ یونینوں نے ان مواقع پر قوم کی اجتماعی راہنما ئی کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا۔ طلبہ سیاست ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جس کے پلیٹ فارم سے جہاں آمریت اور سقوط ڈھاکا کے خلاف بنگلا دیش نامنظور تحریک چلائی گئی وہاں قادیانیوں کو آئینی لحاظ سے اقلیت قرار دلوانے کے پیچھے بھی طلبہ کا ملک گیر اور منظم احتجاج کار فرما تھا۔ پاکستان میں طلبہ یونین کو زیادہ پزیرائی ذوالفقار علی بھٹو جو ایک زیرک سیاستدان تھے کے دور وزارت عظمیٰ میں ملی۔ بھٹو صاحب نے طلبہ کو مطمئن کرنے اور انہیں ملکی معاملات میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر تسلیم کرتے ہوئے 1975میں ایک ایسا قانون منظورکیا جس میں نہ صرف طلبہ یونین کی آئینی اور قانونی حیثیت تسلیم کی گئی بلکہ ان منتخب یونینوں کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے ان کے نمائندوں کو جامعات کے اہم فیصلہ ساز اداروں سینڈیکیٹ اور سینیٹ میں بھی نمائندگی دی گئی جس سے طلبہ کو اپنے نمائندوں کے ذریعے بجٹ سازی، بھرتیوں اور ترقیوں جیسے اہم فیصلوں میں بھی حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے گئے۔
ہمارے ہاں طلبہ سیاست پر باضابطہ پابندی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں لگائی گئی۔ بعدازاں 1984 ہی میں جنرل ضیاء حکومت نے جامعات کے وائس چانسلرز اور کالجز کے پرنسپلز کی نگرانی میں طلبہ سوسائٹیز بنانے کی کوشش کی لیکن طلبہ نے اس میں دلچسپی نہیں لی اور ان کو مسترد کر دیا۔ دسمبر1988میں بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بننے کے بعد طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کی روشنی میں ملک کے بعض حصوں میں تو طلبہ یونین کے الیکشن ہوئے لیکن پورے ملک میں نہ ہو سکے۔ 1992میں عدالت عظمیٰ نے طلبہ سیاست پر پابندی کا فیصلہ سنایا جس کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی سیکرٹری جنرل اویس قاسم نے نظرثانی کی اپیل دائر کی جس پر مارچ 1993میں اس وقت کے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے طلبہ یونین کی بحالی کا فیصلہ کیا البتہ اس بحالی کو کئی پابندیوں کے ساتھ مشروط کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں ایک ماہ کے اندر اندر طلبہ یونین الیکشن کرانے کا حکم صادر فرمایا لیکن مارچ 2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان توکردیا تھا لیکن انہیں اپنے اس اعلان پر عمل درآمد کی توفیق نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ حرف آخر یہ کہ ہمارے ہاں اب جب جمہوریت جڑ پکڑتی جا رہی ہے اور ہم مستحکم جمہوری روایات کی جانب قدم بڑھارہے ہیں تو ایسے میں طلبہ یونین کی افادیت اور ضرورت بھی مزید بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا اگر ہم ملک کے لاکھوں طلبہ وطالبات کی عملی تربیت کرتے ہوئے انہیں جمہوریت کے استحکام کے سفر میں اپنا ہمسفر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں بلاتاخیر ان کا یہ جمہوری اور آئینی حق دینا ہوگا۔