ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں مسلمان راہنمائوں کی کانفرنس گونگوں بہروں کا اجتماع نہیں تھا۔ یہ سروں کی شکل میں گوبھی کے پھول اور پانچ درجن کے قریب مٹکوں کو کرسیوں پر سجانے کی رسم بھی ہرگز نہیں تھی جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں اور جس کا کام نشتند گفتند وبرخاستند سے شروع ہو کر فارسی کے انہی تین لفظوں کے گرد گھوم کر ختم نہیں ہوتا۔ اس کانفرنس میں مسلمانوں کے حقیقی مسائل کی بات ہوئی۔ کشمیر اور روہنگیا، فلسطین سے بھارتی مسلمانوں اور اویغور سمیت دنیا میں مسلمانوں کو درپیش انفرادی اور اس سے بڑھ کر اجتماعی اور حقیقی چیلنج سمیت تمام مسائل پر کھل کر بحث کی گئی۔ کانفرنس میں تین اہم ملکوں کے سربراہ شریک ہوکر دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے جن میں میزبان وزیر اعظم ملائیشیا ڈاکٹر مہاتیر محمد، ترک صدر رجب طیب اردوان اور ایرانی صدر حسن روحانی شامل تھے۔ وائے افسوس اس کانفرنس میں مرکزی حیثیت کی حامل شخصیت عمران خان خود تو کیا ان کا اور ان کے ملک کا کوئی ’’ماجا گاما‘‘ بھی شریک نہیں ہوا مگر پاکستانی عوام کے دل کوالالمپورکے اس ہال میں جاری دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتے رہے۔ پاکستانی ایک جذباتی قو م ہیں جس کے دل ہر مظلوم کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور جب معاملہ مسلم کاز ہو تو یہ سربہ کف ہو کر میدان میں نکلتی ہے۔ یہ قوم حکمرانوں اور حکمران طبقات سے اپنی راہیں جدا کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کرتی۔ خلیج کی پہلی جنگ میں جب پاکستان کے حکمران طبقات عراق مخالف اتحاد کے ساتھ کھڑے تھے رائے عامہ پھسل کر صدام حسین کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھی۔ وہ صدام حسین کے ساتھ نہیں اس کی کمزوری اور مجبوری کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے کیونکہ اس کے مقابل امریکا اور یورپ کے جغادری مسلمان حکمرانوں کی معاونت کر رہے تھے حالانکہ یہ وہی صدام حسین تھا جو بھارت کا کھلا دوست اور پاکستان سے خارکھاتا تھا اور بھولے سے کبھی کشمیر کی حمایت نہیں کرتا تھا۔ یہاں تو معاملہ اُلٹ تھا کہ کوالالمپور کانفرنس میں ابھی چند ماہ پرانی بات ہے کہ جب اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا تو پاکستان اس عالمی فورم پر ایک ایک حرفِ حمایت کے لیے ترس رہا تھا۔ کشمیر کی صورت حال پر پاکستان کو دوستوں اور بہی خواہوں کی تلاش تھی۔ بھارت کی منڈیوں کے سحر اور معاشی طاقت کے دبدبے نے سکوت مرگ طاری کر رکھا تھا۔ انسانی حقوق کی مالا صبح وشام جپنے والے بھی وقتی مفاد کی پٹیاں آنکھوں پر باندھ کر کشمیر کی صورت حال پر اندھا اور بے خبر ہونے کی اداکاری کرنے پر مجبور تھے اور ایسے میں دو طاقتور آوازوں نے پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی کو کسی حدتک کم کیا تھا۔ اسلامی ملکوں کی بھیڑ اور مسلمان حکمرانوں کی طویل قطار میں صرف دو یا تین ہی شیر دل ثابت ہوئے تھے جنہوں نے اپنے مالی اور تجارتی مفادات کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر اس عالمی فورم پر کشمیر اور پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ یہ دونام رجب طیب اردوان اور مہاتیر محمدتھے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے بھارت کے ساتھ گزشتہ دودہائیوں میں اپنے مضبوط معاشی تعلقات کے باجود کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا۔
کوالالمپور کانفرنس سے پاکستان کے الگ ہونے پر عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ جنہیں عمران خان کی تقریر نے حوصلہ دے کر قیام پر آمادہ کیا، ایک بے حس ہجوم کے اندر سے نئے ناز وانداز سے کھڑے ہوئے مگر عمران خان سجدہ سہو کرکے رخصت ہوگئے۔ کوالالمپور کانفرنس سے پاکستان کا اس انداز سے الگ ہونا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ناراضی کا سبب ہے۔ کانفرنس کے دن قریب آچکے تھے اور مہاتیر محمد، طیب اردوان کے ساتھ ساتھ عمران خان کے پوسٹروں سے ملائیشیا کے درودیوار سج گئے تھے کہ عمران خان کو سعودی عرب بلایا گیا۔ وہاں کیا ہوا؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واپسی پر ایک مختصر مگر معنی خیز بیان دیا کہ کوالالمپور کانفرنس کو او آئی سی کے متبادل بنانے کا غلط فہمی دور ہو گئی۔ پاکستان نے کانفرنس میں عدم شرکت کی وجہ مسلم اُمہ میں تقسیم کا تاثر روکنے کو قرار دے کر قصہ ختم کرنے کی کوشش کی مگر طیب اردوان نے کانفرنس میں عمران خان کی عدم شرکت کے حوالے سے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں رکھوائی گئی رقم نکلوانے اور چالیس لاکھ محنت کشوں کو ڈی پورٹ کرنے کی سعودی دھمکی نے کانفرنس سے الگ رہنے پر مجبور کیا۔ پاکستان کی مجبوریاں سمجھتے ہیں وہ ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ طیب اردوان کا یہ انکشاف اس لحاظ سے کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستان کی موجودہ نازک اور مشکل معاشی صورت حال کو سعودی عرب نے سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ طیب اردوان کا انکشاف اگر حقیقت ہے تو اس سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں مضبوطی کے بجائے ایک مستقل دراڑ آگئی ہے۔ کانفرنس سے الگ رہنا پاکستانی حکومت کا ایک انتہائی غیر مقبول فیصلہ ہے اور اب اس میں سعودی دھونس اور دھمکیوں کے تاثر میں عدم مقبولیت کے اس تاثر میں سعودی عرب بھی شامل ہو گیا ہے۔ گوکہ سعودی عرب نے اس دھونس اور دھمکی کے تاثر کی تردید کی ہے مگر وفاقی وزیر شیخ رشید کالاہور میں یہ بیان کہ عمران خان کو ملک کی خاطر کوالالمپور کانفرنس سے پیچھے ہٹنا پڑا، طیب اردوان کی بات کی بالواسطہ تائید کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے ’’ہمارے ساتھ یا اُن کے ساتھ‘‘ کے انداز میںکوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے ایک واضح لکیر کھینچ رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کانفرنس میں رسمی نمائندگی بھی نہ کرسکا۔
او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے کانفرنس کا مسلمان دنیا میں انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دے کر سعودی سوچ وفکر کی نمائندگی کی تھی۔ کوالالمپور میں مسلمانوں کی سپر طاقت بننے کا اعلان ہونا تھا کہ آن واحد میں کوئی بلاک قائم ہونا تھا یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ ہم خیالوں اور ستم رسیدگان کی شناخت وقت اور حالات خود کرتے جاتے ہیں پھر حالات ہی انہیں قریب لاتے ہیں۔ او آئی سی مسلمان دنیا کے ستم زدگان کی تماش بین تنظیم ہے۔ اپنی برسوں کی غیر فعالیت نے اسے محض ایک ٹریڈ مارک تک محدود کردیا ہے۔ اب یہ ٹریڈ مارک سعودی اثررسوخ میں ہے۔ مسلمانوں کے مسائل اور معاملات اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ ٹریڈ مارک سے اب مسلمان دنیا کی تشفی نہیں ہو سکتی۔ مسلمان دنیا کو درپیش چیلنجز کی بدلتی ہوئی نوعیت، اس کی نئی نسل میں پروان چڑھتے نئے جذبات اور سوچ کے بدلتے ہوئے زاویوں کے پیش نظر او آئی سی کا مستقبل وقت کے حوالے ہے اور یہ ابدی سچائی ہے کہ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا نہ کسی کا انتظار کرتا ہے۔ وقت آب رواں کی طرح بہتے دھارے کا نام ہے۔ وقت کی لوح پر یہ تحریر رقم ہوتی ہے ۔
نہ تھا اگر تو شریکِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میری عادت نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مہ ٔ شبانہ
پاکستان کا ہمیشہ سے المیہ یہی رہا ہے کہ معاشی کمزوری اور مجبوری نے اسے ایک بڑے کردار سے محروم کر رکھا ہے اور کوالالمپور کانفرنس نے اس المیے کو کچھ اور نمایاں کردیا ہے۔ ہم نے علامہ اقبال کو مفکر پاکستان اور حکیم الامت جیسے پر تقدس ناموں کے جامے پہنا دیے۔ انہیں قومی شاعر کی اعلیٰ ترین مسند پر براجمان کیا۔ ان کی شاعری قوالوں سے گوا کر ہر پیروجواں کو ازبر کرادی۔ ان کی شاعری کی علامت عقاب کو قومی پرندے کی بلندی پر بٹھا دیا مگر علامہ کے کلام کی روح کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جو بہت پہلے ہمیں یہ پیغام دے گئے تھے
خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند