دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

278

امجد اسلام امجد کے دواشعار:
کہاں آکے رکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں
دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
بھولنے کے لیے ہمیں کسی کی فرمائش یا فہمائش کی ضرورت نہیں۔ بس ہم بھول جاتے ہیں لیکن صرف نام۔ ہمیں نام یاد نہیں رہتے۔ کسی تقریب میں شریک ہوں تو یہ کمزوری زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ تقریبات میں جانے انجانے ہر کوئی تپاک سے ملتا ہے۔ بیش تر کو ہم کچھ کچھ پہچان لیتے ہیں لیکن نام… چلیں چھوڑیں ایک لطیفہ سن لیجیے: جج نے ملزم کو سزا سناتے ہوئے کہا ’’عدالت عالیہ تمہیں چودہ سال قید با مشقت کی سزا سناتی ہے‘‘۔ ملزم نے جج کی طرف غصے سے دیکھا اور کہا ’’یہ سب حرکت تمہاری ہے عالیہ کا تو محض نام ہے‘‘۔ جنرل پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا ردعمل بھی متعلقہ جج کے بارے میں ایسا ہی تھا۔ ’’یہ سب حرکت تیری ہے آئین شکنی کا تو محض نام ہے‘‘۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور محترم جج صاحب کا کیا نام ہے ذہن پر بہت زور دے رہے ہیں لیکن یاد نہیں آرہا۔ گوگل پر سرچ کریں گے تو یاد آئے گا۔ گو گل نہ ہوتا تو ہمارا کیا بنتا۔
بات تقریبات کی ہورہی تھی۔ دوران گفتگو ہم لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ مخاطب کا اگلا پچھلا ذہن میں ہوتا ہے اور نہ یہ یاد کہ کہاں ملاقات ہوئی تھی۔ وجہ شناسائی کیا غرض تھی؟۔ ایسے میں نام ذہن میں ہو! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا ہم نے ایک حل نکالا ہے۔ ہم خوشی کے تمام ایکسپریشن چہرے پر جمع کرنے کے بعد کہتے ہیں ’’بھئی مت پوچھو تم سے مل کر کتنی خوشی ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں ایک معاملے میں تم بہت یاد آئے۔ دل چاہا کہ تم سے مشاورت کریں۔ اب دیکھو نا ہر ہاتھ ملانے والا تو دوست نہیں ہوتا۔ اس قابل نہیں ہوتا کہ دل کھول کر اس کے آگے رکھ دیا جائے۔ ایسے میں تمہاری کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ تمہیں فون کرنا چاہا تو پتا چلا پچھلے دنوں جو فون بک اڑ گئی تھی اس میں تمہارا نمبر بھی ڈی لٹ ہو گیا۔ اب ذرا اپنا نمبر دوبارہ لکھوادو‘‘۔ مخاطب اپنا نام بتاتا ہے۔ اقبال۔ ہم نام سن کر نہال ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’بھئی پورا نام بتائو، اقبال نام کے تو ہمارے کئی دوست ہیں‘‘۔ ’’جی! اقبال پلمبر، کئی سال پہلے آپ کی پائپ لائن خراب ہوگئی تھی میں نے ہی ٹھیک کی تھی‘‘۔
خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
لڑکیاں ایک دوسرے کو جس طرح مخاطب کرتی ہیں اس میں پورا نام یاد ہونا ضروری نہیں۔ رخشندہ ہے تو رخشی، شبانہ ہو تو شبو۔ نام الٹا سیدھا بھی ہوجائے تو شرارت پر محمول کیا جاتا ہے۔ لڑکے اس کی کسر اوئے موٹو، اوئے ہاتھی، اوئے لعنتی کہہ کر پوری کردیتے ہیں۔ دنیا کی وہ عورت جس کا نام آپ کبھی نہیں بھول سکتے وہ ماں ہے۔ چاہے آپ کی ہو یا آپ کے بچوں کی۔
ہم ایک ایسے ادارے میں معلم ہیں جہاں دینی اور عصری تعلیم دی جاتی ہے۔ دینی اور عصری ملاکر پچاس سے زائد استاد ہیں۔ عصری اساتذ ہ تو خیر جیسے ہیں سو ہیں دینی اساتذہ کے رنگ عجب ہیں۔ بے حد مودب، ملنسار، پرخلوص۔ بڑی گرم جوشی سے فصاحت وبلاغت سے نام لے کر پکارتے ہیں۔ عصری علوم کے اساتذہ کو تو ہم ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب کر لیا کرتے تھے۔ دینی اساتذہ کو کس طرح پکاریں، کس نام سے پکاریں۔ کچھ سمجھ نہیں آیا تو ہم نے انہیں بھی ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا شروع کیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کسی محترم استاد نے برا نہ مانا۔ رفتہ رفتہ ہم نے القابات کی کھچڑی سی بناکر رکھ دی۔ کسی کو سر، کسی کو مولانا، کسی کو حضرت، کسی کو قاری، کسی کو مفتی، کسی کو شیخ۔ قسم لے لیجیے بعض مرتبہ نام یاد رہنے کے باوجود بھی کسی دینی شخصیت کا نام لے کر پکارنے کی بے ادبی ہم سے سرزد ہوئی ہو۔
نام پتا ہو یا نہ ہو، کوئی تعلق ہو یا نہ امریکا میں دوقسم کے لوگوں کو اہم شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ استاد اور سائنس دان۔ ہمارے یہاں نام پتا معلوم ہو یا نہ ہو، تعلق ہو یا نہ ہو ہر اس شخص کو اپنا سمجھا جاتا ہے، حق نا حق طرف داری کی جاتی ہے، جو اپنا پیٹی بھائی ہو۔ فوج مشرف کی حمایت اس لیے کررہی ہے کہ ان کا سابق چیف ہے۔ اس نے آئین توڑا، ججوں کو نظر بند کیا، لال مسجد پر حملہ کیا، جامعہ حفصہ کی طالبات پر بم برسائے، پورا ملک امریکا کے سپرد کردیا، ڈالروں کے عوض عافیہ صدیقی اور سیکڑوں پاکستانیوں کو عقوبت خانوں میں گلنے سڑنے کے لیے امریکا کے سپرد کردیا لیکن اسے سزا نہیں ہوسکتی کیو نکہ فوجی بھائیوں کے نزدیک وہ فوجی ہے۔ بھٹو کو معزز جج صاحبان نے ضیا الحق کے دبائو میں آکر پھا نسی پر لٹکادیا، جج ارشد ملک نے تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم کو بلیک میلنگ میں آکر سات برس قید کی سزادی لیکن مجال ہے فیصلہ دینے والے ججوں کو کوئی جج سزا دینے کا تصور بھی کرسکے۔ سیاست دان کرپشن کرتے ہیں، ناجائز کام کرتے پکڑے جاتے ہیں، وعدے کرکے مکر جاتے ہیں مجال ہے متعلقہ جماعت کا کوئی ایک سیاست دان اور ورکر اس کے بارے میں غیر جانبداری سے بات کرسکے۔ بیورو کریسی چاہتی ہے کہ بیورو کریٹس کچھ بھی کریں لیکن اگر ان کے خلاف ایکشن ہوا تو ہم کام نہیں کریں گے۔ سانحہ ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا لیکن قانون کے رکھوالے قاتلوں کو سزا دینا تو درکنار عدالت میں پیش کرنے پرتیار نہیں۔ اسپتال پر حملہ لاکھ ثابت کیجیے کہ غلط تھا لیکن وکلا برادری کے ہوتے ہوئے وکلا کو گرفتار کرکے سزا نہیں دی جاسکتی۔ اسپتال میں وکیلوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا تشدد کیا گیا لیکن ڈاکٹرز تشدد کرنے والے ڈاکٹرز کو قانون کے حوالے کرنے پر تیار نہیں۔ یہ طاقت کے رشتے ہیں۔ کام اور نام سے زیادہ اہم، زیادہ قابل ترجیح۔
بھولنے سے بھی برا ایک مرض اور ہے۔ یاد رکھنا۔ ہمارے ایک دوست تھے۔ ملک میں خلافت راشدہ کا نظام چاہتے تھے۔ اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد بھی کرتے رہتے تھے۔ نجانے کتنے برس بیت گئے جب لا پتا کردیے گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ دوست اسے بارہا سمجھاتے کہ دیکھو اسلام کی بات کرنے سے پہلے سوچ لو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ ایک مجرمانہ خواہش ہے۔ لاپتا ہونے سے چند ماہ پہلے ہی اس کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی بیوی کے ماتمی چہرے کو دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ جب اسے کہا جاتا ہے اپنے شوہر کو بھول جائو۔ تمہارے بچے نہیں ہیں، جوان ہو خوبصورت ہو، دوسری شادی کرلو۔ ایک درد آمیز ہیجان سے وہ چیخ پڑتی ہے ’’وہ خدا جس کے دین، جس کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے اسے درندے اٹھا کر لے گئے ہیں دیکھ لینا وہ ایک دن واپس آئے گا۔ یہ نظام، یہ حکومتیں، ایک دن فنا ہوجائیں گی۔ جب اسلام کا، خلافت کا، نظام آئے گا دیکھ لینا تب وہ بھی واپس آجائے گا۔ میں اس کا انتظار کروں گی۔ تم سب بھی انتظار کرو‘‘۔