یکساں نظام تعلیم کی تیاری

215

وفاقی وزیر تعلیم و فنی تربیت شفقت محمود نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ مارچ تک ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کردیا جائے گا ۔ سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کراچی میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کے لیے ایک نصاب ضروری ہے جس پر کام کیا جارہا ہے ۔ یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب تعلیم کے بارے میں وفاقی وزیر تعلیم نے جو ارادے ظاہر کیے ہیں ، بظاہر ان سے اختلاف تو کیا ، ان پر تبصرہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔نصاب تعلیم اور نظام تعلیم دونوں ہی کسی بھی قوم کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور یہی بتاتے ہیں کہ آئندہ چل کر نوجوان نسل کیا شکل و صورت اختیار کرے گی ۔ مثال کے طور پر سنگاپور کی حکومت کے نزدیک سماجی تعلیم انتہائی اہم ہے اس لیے وہاں پر نصاب تعلیم میں معاشرے میں رہنے سہنے کے طور طریقے سکھانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس کا عکس سنگاپور میں جابجا نظر بھی آتا ہے ۔ جاپان میں صفائی ستھرائی کو اہمیت دی جاتی ہے ، اس کا عکس فٹبال کے گزشتہ ورلڈ کپ میں نظر آیا جس میں جاپانی تماشائی فائنل میچ کے بعد رک گئے اور انہوں نے دیگر ممالک کے تماشائیوں کے برعکس توڑ پھوڑ اور دنگا فساد کے بجائے رضاکارانہ طور پر اسٹیڈیم کی صفائی کی ۔ جاپانی تماشائیوں کے اس عمل کو پوری دنیا میں سراہا گیا اور اس سے جاپانی قوم کی تصویر بھی پوری دنیا میں بہتر ہوئی ۔ اسرائیل میں جارحیت کی اہمیت ہے اس لیے ہر یہودی طالب علم کو عربوں سے لڑنے اور انہیں غلام بنانے کی تربیت پر زوردیا جاتا ہے ۔ ہر اسرائیلی طالب علم کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میںنوجوانوں کی مستقبل کے حوالے سے کوئی سمت ہی متعین نہیں ہے ۔ یہاں پر لارڈ میکالے کا دیا گیا نظام تعلیم نافذ ہے جس سے بے سمت اور بے راہ نسل پروان چڑھ رہی ہے ۔ وفاقی وزیر تعلیم کے انداز بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اہم ترین موضوع پر خاصا ہوم ورک کرلیا گیا ہے اور اب اس کا محض رسمی اعلان باقی ہے ۔ پاکستان میں کئی نصاب اور نظام تعلیم مروج ہیں ۔ وفاقی حکومت کا اپنا اور صوبائی حکومتوں کا اپنا نصاب تعلیم ہے ۔ ملک میں کیمبرج کے تحت امتحان دینا بھی اب فیشن میں داخل ہوچکا ہے ۔ ان کے علاوہ آغا خان بورڈ، ضیاء الدین یونیورسٹی بورڈ جیسے کئی اور امتحانی بورڈز بھی وجود میں آچکے ہیں جبکہ کرسچئن تعلیمی بورڈ بھی پہلے سے خوابیدہ حالت میں موجود ہے ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے مطابق تعلیم اور صحت صوبائی معاملات قرار پائے ہیں ۔ وفاقی وزیر تعلیم نے یہ صراحت نہیں کی کہ اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں کس طرح وہ پورے ملک میں ایک نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نافذ کرپائیں گے ۔ ملک کے امتحانی بورڈوں کی کارکردگی پر پہلے ہی سے سوالیہ نشانات ہیں اور ان کی سند کو پاکستان سے باہر قبولیت کی سند نہیں دی جاتی ۔ خود وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے زیر انتظام امتحانی بورڈوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور ڈگری کالجوں میں داخلے دیے جانے سے قبل این ٹی ایس کا متنازع نظام متعارف کروایا گیا ہے ۔ تو پھر نیا نظام تعلیم کس طرح سے تشکیل دیا جائے گا کہ اُس پر ملک میں اور ملک سے باہر بھی اعتماد کیا جاسکے ۔ کیا سرکاری امتحانی بورڈوں کے علاوہ دیگر سارے امتحانی بورڈوں کی اجازت منسوخ کردی جائے گی ۔ سب سے بڑھ کر بات نصاب کی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تحت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اب تک نصاب تعلیم میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں ۔ نصاب تعلیم سے وہ تمام اسباق اور پیراگراف خارج کردیے گئے ہیں جن سے طلبہ میں حب دین اور حب وطن ذرا سا بھی پیدا ہوسکے ۔ ان کی جگہ لایعنی اسباق شامل کیے گئے ہیں ۔ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم انتہائی اہم ترین معاملات ہیں ، بہتر ہوگا کہ اس پر پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے ۔ یہ بھی بتایا جائے کہ اس اہم ترین ٹاسک کو انجام دینے والے افراد کون ہیں اور ان کی اپنی کیا قابلیت اور ساکھ ہے ۔ اس اہم ترین معاملے کے لیے وفاقی بجٹ میں تو کوئی رقم مختص نہیں کی گئی تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر امریکا یا عالمی بینک سے خصوصی طور پر گرانٹ نما قرض لیا گیا ہے اورامریکا و عالمی بینک ہی کے چنیدہ افراد کو یہ اہم ترین ٹاسک دیا گیا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو یہ بات مزید تشویشناک ہے ۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود فوری طور پر سارے معاملات شفاف طریقے سے قوم کے سامنے لائیں۔ سینیٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر وفاقی وزیر تعلیم سے وضاحت طلب کریں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لارڈ میکالے کا نصاب اور نظام تعلیم مزید بہتری کے ساتھ ملک میں نافذ کرنے کی تیاریاں ہیں ۔ اس بارے میں قومی اور مذہبی جماعتوں کو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اگر پاکستان کے مستقبل کے معماروں کے خلاف کوئی سازش کی جارہی ہے تو ابھی سے موثر لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل امیر العظیم نے عمران خان نیازی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت تعلیم سمیت کسی بھی شعبے میں بہتری نہیں لاسکی ۔ انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ نصاب تعلیم میں بہتری کے بجائے ابتری آئی ہے جبکہ معاشرے میں استاد کی عزت و تکریم اور وقار کو سب سے زیادہ موجودہ حکومت نے پامال کیا ہے ۔ کیا وفاقی وزیر تعلیم امیرالعظیم کی نشاندہی کی ہوئی باتوں کی بھی وضاحت کریں گے ۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم کی اپنی اہلیت کیا ہے؟