میں بھی وہاں موجود تھا

210

جاوید الرحمن ترابی
سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں لاکھوں افراد نے اسلام آباد میں کشمیر مارچ کرکے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اس ملک کی خواتین، بوڑھے، جوان اور بائیس کروڑ عوام کیا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے مارچ میں عوام صرف بھارتی اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج نہیں تھے بلکہ انہیں شکایت حکومت سے تھی کہ حکومت بھارتی جارحیت کے باوجود بے حمیتی کی چادر اوڑھے کیوں سورہی ہے۔ کشمیر مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت بھی اور کارکنان بھی جذبہ شہادت سے سرشار ہیں ان کا مقصد حیات ہی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت ہے۔ اتوار کو جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے کشمیر مارچ کو دیکھ کر عمران خان کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر عوامی جذبات کو زیادہ دیر تک مصنوعی طریقے سے روکا گیا تو وہ سیلاب بن کر راہ میں آنے والی ہر چیز کو بہا لے جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان مسئلہ کشمیر پر عوامی نمائندوں خاص طور سے جماعت اسلامی جیسی پارٹی کو اعتماد میں لیں اور واضح طور پر بتائیں کہ ان کے پاس کشمیریوں کو آزاد کروانے کا کیا منصوبہ ہے۔ حکومت پاکستان سے مایوس کشمیری عوام میں اب یہ سوچ پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت پاکستان محض وقت گزار رہی ہے اور انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ خود ہی کرنا چاہیے۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں بھارتی سول سوسائٹی کے ارکان جنہوں نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا ہے مقبوضہ علاقوں کے لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پرامن احتجاج اور سول نافرمانی سے بھارتی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لہٰذا انہیں عسکریت کا راستہ اختیار کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں فدائی حملوں کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ایک مرتبہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان سے مایوس ہوگئے تو پھر وہ پاکستان سے بھی الحاق نہیں کریں گے اور یہ صورتحال کہیں سے بھی پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہوگی۔
کشمیر مارچ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مجرمانہ خاموشی ختم کرکے کشمیر کو بھارتی پنجے سے آزاد کروانے کے لیے واضح روڈ میپ دے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی درست تصویر کشی کی ہے کہ آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑنے والوں نے گزشتہ پانچ ماہ میں ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ کشمیری اور پاکستانی انتظار کررہے ہیں کہ کب حکومت اعلان جہاد کرے گی مگر ٹیپو سلطان کے راستے پر چلنے کا نعرہ لگانے والے عمران خان 27 ستمبر کی تقریر کے بعد چپ سادھ کر بیٹھ گئے ہیں۔ کوئی توجہ دلائے تو کہتے ہیں کیا کشمیر پر حملہ کردوں؟ اس کے لیے جرأت اور حمیت درکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی سطح پر اور کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کرنے کی پالیسی سے بھارتی حکومت کو شہ ملی ہے اور وہ مزید جارحانہ اقدامات کرتا چلا جارہا ہے۔
بھارت گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے خلاف کامیابی سے آبی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی روکنے اور ان کا بہائو تبدیل کرنے کے لیے سیکڑوں ڈیم بناچکا ہے مگر اس پر پاکستان کی طرف سے علامتی احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں ہوا۔ اب مودی نے متنازع شہریت بل کے ذریعے پورے بھارت میں صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مذکورہ شہریت بل کے بعد بھارتی مسلمان عملی طور پر بے زمین ہوجائیں گے۔ انہیں نہ روزگار ملے گا اور نہ ہی طبی سہولتیں، ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولت حاصل ہوگی اور نہ ہی کسی اور قسم کی شہری سہولتیں۔ مودی کے اس احمقانہ امتیازی بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بدترین ریاستی تشدد جاری ہے۔ روز کئی مظاہرین ریاستی تشدد کے نتیجے میں جان سے جاتے ہیں اور سیکڑوں گرفتار ہوتے ہیں بھارتی پولیس اور فوج مسلمانوں کی املاک کو خود تباہ کررہی ہیں جبکہ گرفتار شدگان کی جائداد کو بھی ضبط کیا جارہا ہے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی پاکستان میں سرکاری سطح پر مجرمانہ خاموشی ہے۔ ایک آدھ نیم دلانہ بیان دے کر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ادا ہوگیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد پارٹی ہے جو مسلسل سقوط کشمیر پر حکومت کو بلکہ عوام کو بھی یاد دہانی کروارہی ہے۔ جماعت اسلامی کا ماضی پاکستان کی حفاظت کے حوالے سے سب سے زیادہ تابناک ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے کارکنان ہی تھے اور ہیں جنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کی عملی مزاحمت کی اور اس کی قیمت وہ اب تک بنگلا دیش میں پھانسی کے پھندوں کو چوم کر ادا کررہے ہیں۔