ایک دور تھا کہ لوگ سرکاری ملازمت کے لیے مرے جاتے تھے اور معاشرے میں اسے بے پناہ عزت و توقیر کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور جس خاندان یا علاقے میں کسی فرد کو اوسط اور حتیٰ کہ کم تر درجے کی سرکاری ملازمت بھی مل جاتی تھی تو اس خاندان اور علاقے کو نہ صرف خوش نصیب سمجھا جاتا تھا بلکہ دیگر خاندانوں اور علاقوں کے لوگ ملازمت پانے والوں کو حسرت اور رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہمارے ہاں سرکاری ملازمت اور اس کے ساتھ پنشن کا کلچر انگریز سرکار کے دور حکومت میں آیا۔ بھرتی ہونے والوں کے لیے ان سرکاری ملازمتوں میں جاذبیت کی دو بڑی وجوہ تھیں۔ ان میں ایک وجہ تو انگریز سرکار کا وہ اعتماد ہوتا تھا جس کی بنیا دپرکسی بھی شخص کو انگریز سرکار کی کسی بھی ملازمت کے لیے اہل تصور کیا جاتا تھا جب کہ سرکاری ملازمت اختیار کرنے کی دوسری بڑی وجہ پنشن کو سمجھا جاتا تھا۔ دراصل بڑھاپے اور ڈھلتی زندگی کے آخری ایام میں پنشن کا حصول ایک ایسی ضرورت ہے جو ماضی کے ساتھ ساتھ آج بھی سرکاری ملازمت کے حصول کی ایک اہم اور بنیادی وجہ تصور کی جاتی ہے۔ یہ پنشن کا تصور اور اس کے حصول کی خواہش ہی ہوتی ہے جو کسی انسان کو اپنی جوانی کے قیمتی اور زندگی سے بھرپور لمحات کسی بھی ملازمت کے لیے وقف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ موجودہ کارپوریٹ دنیا میں گو ملازمت اور سرکاری نوکری کا تصور مسلسل تبدیل ہو رہا ہے اور موجودہ دور میں پرائیویٹ سیکٹر کی ترقی اور اس سیکٹر میں ملنے والی بے پناہ مر اعات اور خاص کر بھاری بھرکم مشاہروں کے باعث سرکاری ملازمتوں کی چاشنی اور رنگینی میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے اور آج کل کے نوجوان چونکہ مستقبل اور خاص کر بڑھاپے کی فکر سے بے نیاز ہو کر حال کی دنیا میں مگن نظر آتے ہیں اس لیے ان کی اس اپرووچ کا اثر زندگی کے دیگر طبقوں کے ساتھ ساتھ ملازمت اور کمائی سے متعلق شعبوں میں بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
20ویں صدی میں بے پناہ صنعتی ترقی کے کوکھ سے جنم لینے والی کارپوریکٹ سیکٹر میں چونکہ آمدن کا رجحان مہینے کی تنخواہ سے تبدیل ہو کر ہفتے اور گھنٹوں کے حساب کتاب کو منتقل ہوچکا ہے اس لیے ان کے ہاں ویک اینڈ اور سالانہ تعطیلات کی ہمہ ہمی اور رنگینی میں ماضی کے برعکس پیدا ہونے والے فرق کو باآسانی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حال کی دنیا میں مگن رہنے کے تصور کے عام ہونے کے نتیجے میں اہل مغرب کی زندگی کے جملہ معیارات بھی ماضی کی نسبت مکمل طور پر یا تو تبدیل ہو چکے ہیں اور یا پھر تبدیلی کے ہمہ گیر عمل سے گزر رہے ہیں۔ مغربی دنیا میں زندگی سمٹ کر محض کمانے اور کما کر خود پر لٹانے تک محدود ہو چکی ہے لہٰذا اس سوچ کا عکس مغربی ممالک کی معاشرتی، معاشی اور دیگر مختلف شعبوں میں بسر چشم دیکھا جاسکتا ہے۔ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، ہم جنس پرستی، کثرت ِ مے نوشی، خود غرضی میں اضافہ، جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، بے رحمی، نائٹ کلبوں کی بھرمار اور بڑھاپے میں سہارے کے لیے اولڈ ایج ہائوسز میں اضافہ وہ اسباب ہیں جو مغربی معاشرے میں ایک سنگین سماجی بحران کی صورت میںسامنے آ رہے ہیں۔ مغرب کو یہ چیلنج بیسویں صدی کے آخری نصف میں درپیش ہوا ہے جس کی بنیاد ہوس پرستی اور زیادہ سے زیادہ مال کمانے کا جنون کی حدتک مغربی معاشرے پر مسلط ہونا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مغرب سے مرعوبیت کا کلچرعام ہونے کے باوجود ہم تاحال کم از کم اس وباء سے کافی حد تک محفوظ ہیں۔
دراصل ہمیں یہ لمبی چوڑی تمہید پاکستان ریسرچ کونسل اسلام آباد کے ایک معتبر اور طب وتحقیق کی خدمات انجام دینے والے ادارے کے دو سو سے زائد ملازمین کی پچھلے ایک سال سے ان کی پنشن کی بندش کی اطلاعات سامنے آنے کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے۔ حیرت ہے کہ ایک خالصتاً وفاقی سرکاری ادارے کے سیکڑوں ملازمین پچھلے ایک سال سے پنشن کے بنیادی حق سے نہ صرف محروم چلے آرہے ہیں بلکہ وہ اس ضمن میں ہر متعلقہ ادارے کا دروازہ بھی کھٹکھٹا چکے ہیں لیکن انہیں تاحال کہیں سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملاحالانکہ پنشن کا حق تنخواہ سے بھی زیادہ فائق ہے کیونکہ تنخواہ کسی انسان کو ملازمت کے دوران اس وقت ملتی ہے جب وہ نہ صرف جوان ہوتا ہے بلکہ اپنی جوانی اور استعداد کی بنیاد پر کسی موقع پر تنخواہ کے بغیر بھی گزارہ کرنے کی اذیت کو برداشت کرسکتا ہے جب کہ اس کے برعکس پنشن کی عمر میں کوئی انسان نہ صرف جسمانی اور طبعی لحاظ سے کمزور وکٹ پر ہوتا ہے بلکہ اس کی مالی حیثیت بھی خاصی پتلی ہوتی ہے لہٰذا ایسے میں اگر اس کی آمدن کا واحد ذریعہ یعنی پنشن بھی بلاوجہ بند کردیا جائے تو ایسی صورتحال میں کسی متاثرہ فرد اور اس کے اہل خانہ کی ذہنی اور جسمانی اذیت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ پی ایم آر سی کے متاثرہ پنشنرز انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح سے اپنے پنشن کی بحالی کے لیے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پی ایچ آر سی، سیکرٹری اور وزیر صحت حتیٰ کی وزیر اعظم پاکستان کو بھی داد رسی کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں لیکن اب تک نہ تو ان کا مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہی کسی بھی جانب سے انہیں کوئی تسلی بخش جواب دینے کی زحمت گوارا کی گئی ہے جس سے ان سیکڑوں خاندانوں کی تشویش اور پریشانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لہٰذا توقع کی جاتی ہے کہ متعلقہ ادارے اس ناانصافی اور ظلم وزیادتی کا فوری نوٹس لیتے ہوئے بند شدہ پنشن کی فی الفور بحالی کے احکامات کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کی داد رسی فرمائیں گے۔