بجلی، گیس مہنگی، صنعتیں ٹھپ

244

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا ) نے ملک بھر میں بجلی کی قیمتوںمیں ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے ۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جانے والا یہ اضافہ اکتوبر میں استعمال کی گئی بجلی پر لاگو ہوگا ۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے لیے مسلسل دباؤ ہے جس کے سامنے حکومت نے سرتسلم خم کیا ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کی فرمائش پر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے نے بجلی کی قیمتوں کے تعین کے لیے اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی حال میں ہی قائم کی ہے جس میں وزیر غذائی تحفظ و تحقیق مخدوم خسرو بختیار، وزیر توانائی عمر ایوب خان، مشیر صنعت و پیداوار عبد الرزاق داؤد اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر شامل ہیں ۔ اس وقت ملک میں بجلی کی اوسطاً قیمت 13 روپے 77 پیسے فی یونٹ تک جاپہنچی ہے، جس میں جنرل سیلز ٹیکس، ایندھن کی قیمت کی ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکس اور ڈیوٹیاں شامل نہیںہیں ۔ اب یہ نیپرا کے معمولات میں شامل ہوچکا ہے کہ وہ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ بنیاد پر اضافہ کرتا ہے جبکہ ہر کچھ عرصہ کے بعد گیس کی قیمتوں میں بھی بھاری بھرکم اضافہ کرنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔جنوری سے گیس کی قیمت میں مزید ڈھائی سو فیصد اضافے کا بم پہلے سے گرایا جاچکا ہے ۔ اور گیس مل بھی نہیں رہی ۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور برآمدات بری طرح متاثرہیں ۔ایسے میںوزیر اعظم عمران خان نیازی اور ان کی ٹیم کس طرح سے معیشت کی بہتری کے دعوے کرتی ہے ۔ معاشی ترقی کا ہر اشاریہ تیزی سے نیچے جارہا ہے ، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سستی بجلی کے ذرائع اختیار کرے ۔ فرنیس آئل سے بجلی کی پیداوار دنیا میں بجلی پیدا کرنے کا مہنگا ترین طریقہ ہے جس سے پاکستان میں بجلی پیدا کی جارہی ہے ۔ پاکستان میں ابھی تک بجلی کی تقسیم میں ہونے والے نقصانا ت کو کم نہیں کیا جاسکا ہے جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہی بجلی کی چوری میں ملوث ہیں ۔ بجلی کی پیداواری لاگت کیا ہے اور نجی بجلی گھروں کو کیوں اضافی ادائیگی کی جارہی ہے ، اس بارے میں جاننا صارفین کے بنیادی حقوق میں شامل ہے مگر اس کی معلومات نہ تو کہیں پر دستیاب ہیں اور نہ ہی سرکاری ادارے اس بارے میں لب کشائی کے لیے تیار ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سرکاری ادارے ہی ملک کو لوٹنے والوں کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے سرکاری خزانے میں اتنی رقم نہیں جاتی ، جتنا نجی کمپنیوں کے کھاتے میں جمع ہوجاتی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ حکومت نیپرا کو پابند کرے کہ وہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو حقیقی سطح پر رکھیں اور سرکاری آمدنی میں اضافے کے لیے دیگر راستے اختیار کیے جائیں ۔