اخبارات کے خلاف عمران خان کا اعلان جنگ

265

وزیر اعظم عمران خان نے بھارت، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور دیگر مخالف قوتوں کو چھوڑ کر اچانک اس شعبے پر حملہ کر دیا جس کی مدد سے ان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچنے میں بڑی مدد ملی تھی ، وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ اخبارات میں مافیا بیٹھا ہے ہر روز بری خبریں آ رہی ہیں کئی صحافی پرانے سسٹم سے پیسے بنا رہے تھے ، ان کی روزی بند ہے اس لیے خلاف لکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کا مافیا روز حکومت کے خلاف شور مچاتا ہے ۔ انہیں جیل جانے کا خوف ہے اگلا سال ان کے لیے بہت برا ہو گا ۔مزید چیخیں گے ۔ اس پر جو رد عمل فوری طور پر آیا ہے وہی آنا چاہیے تھا ۔ سب کے ذہن میں یہی بات آئے گی کہ عمران خان نے جو بات کہی ہے وہ عام آدمی نے نہیں وزیر اعظم نے کہی ہے۔ ان کو جب یہ معلوم ہے کہ میڈیا میں پرانے سسٹم سے پیسے لینے والے لوگ بیٹھے ہیں جن کی روزی بند ہے تو ان کو ان صحافیوں کے نام بھی پتا ہوں گے لہٰذا مطالبہ آیا ہے کہ مافیا کی نشاندہی کریں ، رقم لینے والوں کا نام بتائیں ،گرفتار کریں ۔ اس پر ا ور بھی تبصرے ہوں گے اور کیے جار ہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم یا ان کو دی گئی ٹیم مسلسل اپنے دشمنوں میں اضافہ کر رہی ہے ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی لا علمی والا رویہ رکھتے ہیں ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے حق میں مہم چلانے والے صحافی کسی طور بھی تحریک انصاف کے نظریے یا ان کے منشور سے متفق یا اس کے دیوانے نہیں تھے بلکہ ان کی روزی روٹی لگی ہوئی تھی ۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی مافیا پیسے لے کر خبریں لگاتا ہے تو وہ آنے والوں کے لیے خبریں لگاتا ہے جانے والوں کے لیے نہیں پرانے سسٹم سے انہوں نے جو کچھ کمایا تھا وہ خرچ ہو چکا اب وہ جس سے بھی پیسے لے کرخبریں دے رہے ہیں وہ آنے والے کے لیے دے رہے ہیں خواہ وہ پرانا سسٹم ہو یا کوئی نیا سسٹم… عمران خان کو بھی ان کے آنے سے پہلے پرانے سسٹم میں موجود صحافیوں نے روز خبریں جاری کر کے لیڈر بننے میںمدد دی تھی ۔ وزیر اعظم یہ جانتے ہیں کہ اخبارات میں مافیابیٹھا ہے تو انتظار کس بات کاہے ۔ اب تو میڈیا میںموجود صحافیوں نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ نام بتائیں اور کارروائی کریں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ وزیر اعظم مبہم بات نہ کریں پوری میڈیا انڈسٹری کو دھمکی نہ دیں ۔ اگر ایسے لوگ ہیں تو دس بیس یا پچاس ہوں گے اس بنیاد پر ہزاروں سنجیدہ صحافیوں اور لاکھوں میڈیا ورکرز کو مطعون کرنا غلط ہے ۔ بلکہ اس مبہم بیان سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس کی آڑ میں صحافیوں کے خلاف ملک بھر میں اندھا آپریشن شروع کر دیا جائے گا ۔ جو لوگ ہر روز بری خبر دیتے ہیں وہ اب پرانے سسٹم سے نہیں نئے سسٹم سے پیسے لے رہے ہوں گے ، اور نیا سسٹم اتنا مضبوط تو ہے کہ وزیر اعطم تک میں اس سسٹم یا ان صحافیوں کا نام لینے کی ہمت نہیں ۔ سینئر صحافیوں کے رد عمل کو دیکھیں تو بہت واضح بات ہے جس کی طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ میڈیا یا عدالت سے ٹکرائو پر حکومت چلی جاتی ہے ۔ جاوید چودھری نے بجا کہا کہ میڈیا کو چاہیے کہ رانا ثناء کیس پر سوال نہ کرے۔ لیکن لگتا ہے کہ عمران خان نیازی چاہتے ہیں کہ کوئی سوال ہی نہ کرے۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے اصل مرض کی نشاندہی کر دی ہے کہ حکومت مایوسی کا شکار ہے ۔ جس قسم کی باتیں عمران خان کر رہے ہیں وہ کوئی مایوس فرد ہی کر سکتا ہے ۔ یہ بالکل آخری بیانات ہوتے ہیں کہ کسی ادارے کو نشانہ بنایا جائے یا افراد کو اپنی خرابیوں کا ذمے دار قرار دیا جائے ۔ مظہر عباس نے درست مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم اپنے بیان کی روشنی میں کمیشن بنائیں ۔ صحافتی تنظیموں اور یونینوں کو بھی اس بیان پر سخت نوٹس لینا چاہیے کہ وزیر اعظم نے افراد نہیں اداروں کا نام لیا ہے اور اس میں بھی کسی ایک اخبار کی تخصیص نہیں ہے بلکہ اخبارات کہا ہے… یہ بیان کنٹینر والا لگتا ہے ذمے دار آدمی کانہیں ۔ وزیر اعظم نے اس کے علاوہ جو دعوے کیے ہیں وہ بھی کوئی ٹھوس باتیں نہیں ہیں ۔ حکومت سنبھالتے ہی کہا تھا کہ100 دن میں بہتری کے راستے پر آ جائیں گے ۔ ان کی مدد کو فوجی ترجمان بھی آئے اور کہا کہ چھ ماہ تک مثبت خبریں دیں… وزیر اعظم کے قریب کوئی ہے تو انہیں بتا دے کہ چھ ماہ کب کے ختم ہو گئے ۔ اب خبریں تو آئیں گی ان باتوں کا جواب بھی دینا ہو گا جن کے وہ مکلف نہیں۔ جو اب نہ دیا تو پھر نیا سسٹم نئے لوگوں کو لے آئے گا ۔