ہم بھارت کو ٹوٹتا دیکھ رہے ہیں؟

30

بھارت میں ان دنوں کٹر ہندو نریندر مودی کی حکومت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی معمولی نہیں ہے، جب کوئی ملک اپنے ہی اقدامات کی وجہ سے خود ٹوٹنے کی شروعات کردے تو اسے غیر معمولی کہا جاتا ہے۔ رواں دور کی مسلم نسل اور میرے ہم عمروں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہم ہندوؤں کی ریاست کو ٹوٹتا دیکھنے کی شروعات کے گواہ بن رہے ہیں۔ بھارت دنیا کے نقشے پر ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والا ملک ہے جہاں کم و بیش 97 کروڑ ہندو آباد ہیں۔ جبکہ اس ہندوستان کی دوسری بڑی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن کی مجموعی تعداد 18 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ عیسائی بھارت کی دوسری بڑی اور سکھ تیسری بڑی اقلیت ہیں۔ دیگر اقلیتوں میں بدھ مت، جین، بہائی اور دیگر ہیں یہاں لادین بھی تقریباً 8 لاکھ ہیں۔ مگر بھارت کے کٹر ہندو کل کے مقابلے میں آج زیادہ شدت اور تشدد پسند نظر آتے ہیں۔
ہندوستان 1947 میں جن حالات کی وجہ سے تقسیم ہوا تھا، آج 72 سال بعد وہی حالات انڈیا میں دہرائے جارہے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے ممکن ہے یہ بات باعث مسرت ہو کہ دنیا میں ہندو مذہب کا سب سے بڑا ملک تیزی سے ٹوٹ کر بکھرنے کی طرف گامزن ہوچکا ہے۔ ہندو قوم پرستی کا زعفرانی رنگ ایک بار پھر انڈیا کے حکمرانوں کے تن پر چڑھنے لگا ہے وہ اب اس رنگ کے کپڑوں کو پہن کر اپنے متعصب ہونے کا کھلا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پورے ملک کو وہ خالصتاً حقیقی ’’ہندوستان‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی وہ سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ’’ہندو راج‘‘ قائم ہوسکے۔
یہ سب کچھ دراصل وہ بھارت میں تیزی سے پھیلتی ہوئی مسلمانوں کی آبادی سے خوفزدہ ہوکر کررہے ہیں۔ حالانکہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور مسلمان کسی کو ڈراتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ مسلمانوں کو دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر ہوتی ہے اور آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی طرف راغب کرنے کے لیے وہ تمام انسانوں کو اس کائنات کے مالک اللہ ربّ العالمین کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں یہ سلسلہ 14 سو سال سے جاری ہے۔ مگر یہ بات زعفرانی رنگ کے دلدادہ ہندو قوم پرست شاید کبھی نہ سمجھ سکیں۔ 9 دسمبر کو بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ اسی رنگ کی واسکٹ پہنے لوک سبھا میں ایک ترمیمی بل پیش کرکے پورے بھارت میں وہ کام کرگئے جو وہاں اس سے قبل کسی حکمراں نے نہیں کیا۔ امیت شاہ تو ایک مہرہ ہے اس انتشار پر مبنی کھیل کا اصل کھلاڑی نریندر مودی ہے۔ نریندر مودی وہ شخص ہے جس کے حوالے سے کوئی مثبت بات کل کہی جاتی تھی اور نہ ہی آج کہی جاتی ہے۔ مودی کا ذکر آتے ہی بھارت کے گجرات میں ہونے والی خوںریزی کے واقعات ہندوستانیوں کی آنکھوں کے سامنے کسی خوفناک فلم کی طرح چلنے لگتے ہیں۔ مودی حکومت نو دسمبر کو شہریت کا ترمیمی بل پیش کرنے سے قبل ہی رواں سال 5 اگست کو آرٹیکل 370 میں ترمیم اور کشمیر پر غیر انسانی پابندیاں عائد کرچکی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہندو وزیراعظم مودی کو اپنے ہی ملک میں آتش و آہن کا کھیل شروع کرنے کا اسکرپٹ امریکا کے ریسلر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں وزیراعظم مودی سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران دیا تھا۔ اس میٹنگ میں دونلڈ ٹرمپ نے مودی سے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ: ’’امریکا اور بھارت کو اسلامی دہشت گردی سے خطرہ ہے‘‘۔ اس ملاقات کے بعد مودی اپنے ہی ملک کو اس جانب لے آئے جہاں چاروں طرف ان سے نفرت کا کھل کر اظہار کیا جارہا ہے۔ مودی ان حالات میں اپنے ہی ملک میں کسی عوامی اجتماع سے خطاب کا تصور بھی نہیں کرسکتے بلکہ اب اقتدار سے ان کی واپسی کی تیاریاں بھی شروع کی جاچکی ہیں۔
مودی حکومت کا شہریت کے قانون میں ترمیم (شہریت ترمیمی ایکٹ) کا قانون تو پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے جو ہندو، سکھ، جین، بدھ اور پارسی مذہبی بنیادوں پر استیصال یا تشدد کی بنا پر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے یا اسی بنا پر 31 دسمبر 2014ء سے قبل بھارت میں داخل ہوئے، انہیں 5 سال قیام کے بعد بھارتی شہریت دینے کے لیے بنایا گیا ہے جس سے مسلمان اس حق سے محروم رہیں گے۔ تاہم اس بل کے نتیجے میں جو ردعمل سامنے آرہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے بھارتی سیکورٹی کے ادارے اور پولیس جو کچھ کررہی ہے اس کے نتیجے میں اس قانون کا برقرار رہنا ہی ناممکن ہوچکا ہے بلکہ نریندر حکومت بھی خطرے میں آچکی ہے۔ بھارتی حکومت اس سارے معاملے سے باہر نکلنے کی کوشش شروع کرچکی ہے اس مقصد کے لیے اطلاعات کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی پلوامہ حملے کی طرح کچھ نیا ڈراما کرنا چاہتی ہے جس کے تحت بھارت کے کشمیر میں خوںریزی ہو اور الزام پاکستان پر آجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس ممکنہ سازش سے کس طرح نمٹتا ہے اور بے بنیاد الزام سے کیسے بچتا ہے۔