محمد اکرم خالد
اب یہ بات کافی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ ہم آج بھی اُسی پاکستان کا حصہ ہیں جس میں حکمران نااہل، کرپٹ، ذاتی مفادات کی سیاست کو غریب کے مسائل پر ترجیح دیتے تھے جہاں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کی خواہش میں اُن مخالف جماعتوں سے بھی اتحاد کر لیا جاتا تھا جن کو چور ڈاکو جرائم پیشہ سمجھا جاتا تھا جہاں سیاسی وفاداریوں کو بدلنے والے خانہ بدوشوں کو اپنے اقتدار کے لیے وزارتوں سے نوازہ جاتا تھا جہاں قومی اداروں کو اپنا غلام تصور کیا جاتا تھا جہاں پولیس نیب تحقیقاتی اداروں کو سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جہاں امیر کے لیے خصوصی قانون بنا یا جاتا تھا اور غریب کو بوسیدہ نظام کے تحت سزائیں دی جاتی تھیں جہاں غریب عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے اور پولیس ان پر لاٹھی چارج آنسوگیس چلا کر ان کو حراست میں لے کر اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرتی تھی۔ جہاں گیس، بجلی، علاج، روزگار، انصاف اور مہنگائی کا جن آزاد گھومتا تھا جہاں جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے تھے جہاں ننھی معصوم بچیاں درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتی تھیں۔ یہ وہ پاکستان تھا جہاں غریب 72 سال سے اپنے مسائل کا رونا رو رہا تھا یہ وہ پاکستان تھا جہاں غریب عوام نالائق نااہل سیاستدانوں کی گرفت میں قید تھے ۔
۲۰۱۸ کے عام انتخابات میں اس مسائل زدہ قوم کو تبدیلی، نیا پاکستان، ریاست مدینہ کی طرز کا پاکستان کی ایک اُمید دلائی گئی جہاں امیر غریب کا احتساب ایک بااثر غیر جانبدار نظام کے تحت کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا جہاں غریب کے لیے اس کی اپنی چھت کا دعویٰ کیا گیا بیروزگار نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کی نوید سنائی گئی جہاں بہتر نظام
تعلیم بہتر علاج کی سہولتوں کا دعویٰ کیا گیا جہاں عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کا دعویٰ سستی اشیائے ضرورت کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ مگر ڈیرھ سال میں ان خوابوں نے دم توڑ دیا اور موجود منتخب حکومت کہا جائے یا سلیکٹڈ دونوں صورتوں میں مسائل زدہ عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ اس قوم پر غیر آئینی حکمرانوں نے بھی مارشل لا کی صورت میں حکمرانی کی ہے یقینا سچ بہت کڑوا ہوتا ہے جس کو بولنا اور قبول کرنا بڑا ہی مشکل ہوتا ہے کوئی دو رائے نہیں کہ مارشل لا ایک غیر آئینی اقدام ہے جس کے نقصانات سے انکار کسی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ایسا کیوں کیا جاتا ہے دراصل جب جمہوریت کے دعویدار ناکام ہونے کے درپے پہنچ جاتے ہیں جب ان کے دعوئوں سے قوم مایوس ہوجاتی ہے جب یہ کرپٹ ضمیر فروش خانہ بدوشوں کے سہارے ریاست مدینہ کا بے بنیاد دعویٰ پورا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں جب ان کی نااہلیوں کے سبب اس ملک کے معزز ادارے متنازع ہونے کی جانب بڑھتے ہیں جب ان کی نا کارکردگی کے سبب ملک و قوم کو بڑے نقصان کا سامنا ہوتا ہے تو غیر آئینی اقتدار کا دروازہ کھول جاتا ہے جن سے عوام میں تو شاید خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے مگر سیاسی جماعتوں کو اس کا بڑا صدمہ اور بڑا سیاسی نقصان پہنچتا ہے۔ دراصل ہم خود ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے ہم پہلے تو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر یہ کہتے نہیں تھکتے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور جب ہماری نااہلیوں کے سبب کوئی غیر آئینی اقدام رونما ہوجاتا ہے تو ہم اس کی سخت مخالفت میں اداروں کو متنازع بنا دیتے ہیں۔ بڑی معذرت کے ساتھ کے ماضی کی جمہوری حکومتوں اور آمریت کے دور میں مہنگائی اور ترقیاتی کاموں میں ایک واضح فرق یہ قوم محسوس کرنے کی اب صلاحیت رکھتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کی نسبت پرویز مشرف کے دور میں پاکستان معاشی دفاعی اور ترقیاتی منصوبوں کی دوڑ میں بہت آگئے تھا جس کی مثال کراچی کی صورت میں دی جاسکتی ہے جہاں ترقیاتی منصوبے بڑی تیزی سے مکمل کیے گئے۔ دفاعی اعتبار سے بھی ملک کو مضبوط کیا گیا اور پھر یہ بھی حقیقت ہے جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آمریت کے اس دور میں سانحہ 12مئی، سانحہ لال مسجد، اکبر بگٹی سمیت سیکڑوں افراد ہلاک کیے گئے اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔
ان تمام حقائق کے باوجود یہ قوم ملک میں اپنے منتخب نمائندوں کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور اپنے مسائل کا حل جمہوریت میں تلاش کرتی ہے مگر ہر جمہوری دور میں ان کو اپنے مسائل کے حل میں نااُمیدی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے موجودہ حکومت کو ڈیرھ سال گزار گیا ہے اس ڈیرھ سال میں وزیر اعظم کے قوم سے خطاب اور وزراء کی پریس کانفرنس صرف احتساب کرپشن چور ڈاکو کے گرد گھومتی دکھائی دی ہے۔ محترم وزیر اعظم اس قوم نے مان لیا ہے کہ ماضی کی حکومتیں کرپٹ نااہل تھیں جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہیں تھیں مگر آپ کی حکومت کو ڈیرھ سال ہوگیا ہے غریب بھکاری بن گیا ہے مہنگائی نے اس کے بچوں کے منہ سے نوالا چھین لیا ہے۔ انسداد تجاوزات کے نام پر اس کے سر سے چھت چھین لی ہے بے روزگار نوجوان جرائم کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوگیا ہے۔ علاج کی بہتر سہولت نہ ملنے کی وجہ سے لوگ زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ اور آپ سمیت آپ کے وزرا عیش و عشرت کی پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں آپ کی تقریروں اور وزراء کی کانفرنسوں سے یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ آپ کی ریاست میں غریب عوام کے مسائل پر بھی کوئی نظر رکھے ہوئے ہے ہر وزیر اپنی وزرات کی کار کردگی پیش کرنے کے بجائے میاں صاحب اور زرداری صاحب کی کرپشن کی داستان سناتا نظر آتا ہے جس سے آپ کی غریب عوام کے مسائل پر سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے مان لیا کہ ماضی کی حکومتیں چور ڈاکو کرپٹ نااہل تھیں مگر آپ کو تو عدالت عظمیٰ نے صادق و امین قرار دیا ہے اگر صادق و امین کے دور میں مہنگائی، علاج، انصاف، تعلیم، بے روزگاری کا یہ حال ہے تو پھر آپ کو کوئی حق نہیں کہ آپ ماضی کی حکومتوں کو چور ڈاکو کرپٹ نااہل ہونے کا راگ الاپ کر اس قوم کے مسائل پر سیاست کریں۔ یہ قوم اپنے مسائل کا مستقل حل چاہتی ہے لہٰذا جیسے ایکسٹینشن کے معاملے پر پوری حکومت ایک پیر پر کھڑی تھی ایسے ہی آپ صادق و امین ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس مسائل زدہ قوم کے بنیادی مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر فوری حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہم مان لیں گے کہ آپ صادق و امین ہیں اور اس قوم کا درد رکھتے ہیں۔