اسلام کے مستقبل سے جاوید چودھری کی مایوسی

477

یہ بات قرین قیاس ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان فرد یا کسی مسلمان گروہ، کسی مسلمان جماعت یا کسی مسلمان قوم کے مستقبل سے مایوس ہو۔ لیکن اسلام کے مستقبل سے مایوسی کا کوئی جواز ہی نہیں۔ مگر ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلام کے مستقبل سے بھی مایوس ہیں۔ اتفاق سے یہ مایوسی ان کی گفتگو یا ان کی تحریر سے آشکار بھی ہوجاتی ہے۔ ملک کے معروف کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چودھری ایسے ہی شخص ہیں۔ جاوید چودھری کو پیغمبروں کے روضوں اور اولیا کے مزارات پر جانے کا شوق ہے۔ وہ اس شوق کو حصول برکت کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مگر ظفر اقبال کا شعر ہے۔
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے‘ مست ہے قلندر ہے
جاوید چودھری کا قصہ بھی یہی ہے۔ ان کے کالموں سے اسلام بیزاری اور اس کے مستقبل سے مایوسی جھلکتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے ایک حالیہ کالم کے تین اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔
’’پرسیپشن یہ ہے ہم مشرقی روایات میں بندھے ہوئے لوگ ہیں، ہم خواتین کو انتہائی محترم سمجھتے ہیں اور ہم حیا دار لوگوں بھی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چائلڈ پورنو گرافی کا دنیا کا سب سے بڑا مجرم سہیل ایاز پاکستانی تھا، یہ 12 نومبر 2019ء کو روات سے گرفتار ہوا اور یہ 2 سال تک سرکاری ملازم رہا، حقیقت یہ ہے کہ نوجوان لڑکی دُعا منگی ڈی ایچ اے کراچی سے 30 نومبر کو لوگوں کے سامنے اغوا ہوئی اور یہ تاوان ادا کرکے گھر واپس آئی اور 8 سال کی لائبہ کی لاش کراچی کی بھینس کالونی کے باڑے سے ملی۔
یہ دودھ لینے کے لیے 7 دسمبر کو گھر سے نکلی تھی اور پرسیپشن یہ ہے کہ ایک دین دار معاشرہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان منشیات کی دُنیا کی بہت بڑی مارکیٹ ہے، ہمارے 80 لاکھ لوگ نشئی ہیں، ہمارا انسداد منشیات کا وزیر اپنی زبان سے کہتا ہے کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کی 75 فی صد طالبات اور 45 فی صد طلبہ منشیات کے عادی ہیں‘‘۔
’’ دُنیا میں اسلام اور لبرل ازم کے ماڈلز موجود ہیں اور یہ دونوں کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن ہم کیا کررہے ہیں؟ ہم شراب سازی کی فیکٹری بھی چلارہے ہیں، وزارت مذہبی امور حاجیوں کی رقم سے سود بھی کمارہی ہے، ہم بے پردگی کو عورتوں کا بنیادی حق بھی سمجھ رہے ہیں، ہم اپنی مرضی سے نماز پڑھنا اور چھوڑنا بھی چاہتے ہیں، ہم شہریوں سے 82 فی صد تک ٹیکس بھی وصول کررہے ہیں، ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے سود پر قرضے بھی لے رہے ہیں، ہم اسٹیٹ بینک اور اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے اکانومی بھی کنٹرول کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر عوام میں کھڑے ہو کر تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا اعتراف بھی کررہے ہیں اور ہم دوسری طرف ملک کو مدینہ کی ریاست بھی بنانا چاہتے ہیں، کیا دنیا میں کبھی لسی اور چائے دونوں اکٹھی بن سکی ہیں؟ کیا دنیا میں کسی جگہ لبرل مولوی کی گنجائش موجود ہے اور کیا دنیا میں کسی جگہ سود خور وزارت مذہبی امور بھی موجود ہے؟ جی نہیں! دنیا بہت کلیئر ہے، فلاسفی کے دو ہی رنگ ہوتے ہیں، وائٹ یا پھر بلیک، بلیک اینڈ وائٹ دونوں نظریات اکٹھے نہیں چل سکتے، رائٹ رائٹ ہوتا ہے اور لیفٹ لیفٹ، انسان بیک وقت لیفٹ رائٹ دونوں سائیڈوں پر نہیں چل سکتا، ہم نے اگر مدینہ جانا ہے تو پھر ہمیں پوری اسپرٹ کے ساتھ واشنگٹن کی طرف دوڑنا ہوگا، ہم کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر بڑا وقت برباد کرچکے ہیں‘‘۔
’’ہمارے سامنے پوری تاریخ کھلی پڑی ہے، کنفیوژن رومن ایمپائر جیسی طاقتوں کو بھی نگل گئی تھی، یہ سوویت یونین کو بھی کھا گئی اور یہ اب ایران، سعودی عرب، اردن اور مصر کی طرف بھی بڑھ رہی ہے، یہ ملک بھی جلد یا بدیر دائیں یا بائیں کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، سعودی عرب اور ایران میں تبدیلیاں آرہی ہیں، مجھے محسوس ہوتا ہے شریعت سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ اور ایران میں قم اور مشہد تک محدود ہوجائے گی جب کہ باقی شہر یورپی بن جائیں گے۔ دنیا میں جب اصل اسلامی ریاستیں ری شیپ ہورہی ہیں تو پھر ہم کتنی دیر خود کو دھوکا دے لیں گے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 12 دسمبر 2019ء)
جاوید چودھری کے کالم کے پہلے دونوں اقتباسات میں جاوید چودھری نے بالکل درست بات کہی ہے۔ اسلام، اسلام ہے اور لبرل ازم، لبرل ازم۔ ہمیں اگر اسلام عزیز ہے تو ہماری ریاست کے ہر شعبے پر اسلام کو غالب ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر ہمیں لبرل ازم سے محبت ہے تو پھر ہمیں اپنی پوری زندگی کو لبرل ازم کے رنگ میں رنگ دینا چاہیے۔ یہ جو ہم آدھا اسلام اور آدھا لبرل ازم چلارہے ہیں اس کا بہرحال کوئی جواز نہیں۔ یہ ایک اصولی موقف ہے اور اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جاوید چودھری اپنے پہلے دو اقتباسات میں نہ صرف یہ کہ ایک ’’اصولی بات‘‘ کہہ رہے ہیں بلکہ وہ اسلام اور لبرل ازم کے حوالے سے ’’غیر جانب دار‘‘ بھی نظر آرہے ہیں۔ مگر ان کے کالم کے زیر بحث آخری اقتباس میں ان کی اسلام کے مستقبل سے مایوسی ظاہر ہو ہی گئی۔ اسلام کے مستقبل سے جاوید چودھری کی مایوسی ان فقروں سے پوری طرح ظاہر ہے۔
’’سعودی عرب اور ایران میں تبدیلیاں آرہی ہیں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شریعت سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ اور ایران میں قم اور مشہد تک محدود ہوجائے گی۔ جب کہ باقی شہر یورپی (یعنی لبرل) بن جائیں گے۔ دنیا میں جب ’’اصل اسلامی ریاستیں‘‘ ری شیپ (Reshape) ہورہی ہیں تو پھر ہم کتنی دیر خود کو دھوکا دے لیں گے‘‘۔
اسلام کی تاریخ یہ ہے کہ کبھی اسلام کا مرکز مکہ تھا۔ پھر اسلام کا مرکز مدینہ بن گیا۔ تاریخ کا سفر مزید آگے بڑھا تو اسلام کے نئے مراکز اُبھر آئے۔ اسلام کا ایک مرکز بغداد تھا۔ اسلام کا ایک مرکز شام تھا۔ اسلام کا ایک مرکز غرناطہ تھا۔ اسلام کا ایک مرکز ثمرقند تھا۔ اسلام کا ایک مرکز بخارا تھا۔ اسلام کا ایک مرکز دلّی تھا۔ اسلام کے مراکز کی تبدیلی کا سبب یہ ہے کہ اسلام اپنی روح میں ’’عالمگیر‘‘ ہے۔ اسلام ایک جگہ کمزور پڑتا ہے تو کسی اور جگہ طاقت ور بن کر اُبھر آتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ ابتر زمانے شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں۔ امام غزالی کے زمانے میں یونانی فلسفے نے ابن رشید اور ابن سینا جیسے لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم دنیا میں اسلام کا مستقبل تاریک اور فلسفے کا مستقبل بہت روشن ہے۔ یونانی فکر نے مسلم مفکرین کی فکر میں تین ہولناک عیب پیدا کردیے تھے۔ ابن رشد اور ابن سینا اور ان کے پائے کے دیگر مسلم فلسفی اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ جس طرح خدا کی ذات قدیم ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اسی طرح یہ عالم یا یہ مادی کائنات بھی قدیم ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ دوسرا بڑا فکری سانحہ یہ ہوگیا تھا کہ مسلم فلسفیوں کا ایک بڑا گروہ انسانی عقل پر وحی کی بالادستی کا قائل نہیں رہ گیا تھا۔ تیسرا فکری سانحہ یہ ہوا تھا کہ مسلم فلسفیوں کی بڑی تعداد اس بات کو ماننے لگی تھی کہ خدا کا علم جامع نہیں، یعنی ہر چیز پر محیط نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ خدا ’’کلیات‘‘ کا علم تو رکھتا ہے مگر ’’جذبات‘‘ کا علم نہیں رکھتا۔ یہ تینوں باتیں کفر تھیں اور پوری مسلم فکر کو کھاجانے والی تھیں۔ عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ جب معاشرے کے فکری اور سیاسی رہنما گمراہ ہوجاتے ہیں تو پھر عام لوگوں کے گمراہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ مگر اس حال میں امام غزالی اُٹھے اور انہوں نے تنِ تنہا یونانی فلسفے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ غزالی کا کارنامہ اتنا بڑا ہے کہ پوری یورپی یا ’’عیسائی تہذیب‘‘ بھی وہ نہ کرسکی جو تنِ تنہا غزالی نے کر دکھایا۔ عیسائی تہذیب یونانی فلسفے کی زد پر آئی تو پچک کر رہ گئی اور بالآخر اس نے خدا، رسالت، آخرت غرضیکہ پورے مذہب کا انکار کردیا۔ مگر صرف ایک غزالی کی وجہ سے اسلام زندہ رہا۔
تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور بظاہر مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاتاریوں کے غلام ہوگئے تھے۔ مگر بالآخر یہ ہوا کہ تاتاریوں سے میدان جنگ میں پٹ جانے والے مسلمانوں کے دین نے تاتاری حکمرانوں کو مسحور کرکے مشرف بہ اسلام کردیا۔ چناں چہ اقبال نے بجا طور پر بڑے فخر کے ساتھ کہا۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مغلیہ سلطنت کے طویل تجربے کے باوجود شاہ ولی اللہ کے زمانے تک آتے آتے قرآن اور حدیث کا علم برصغیر سے تقریباً اُٹھ چکا تھا۔ مگر شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے دیکھتے ہی دیکھتے قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کردیا۔ شاہ ولی اللہ نے خود قرآن کا ترجمہ فارسی میں اور ان کے فرزند ارجمند نے قرآن کا ترجمہ اردو میں کیا اور کروڑوں مسلمانوں کو قرآن سے منسلک کردیا۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
بیسویں صدی میں اقبال، مولانا مودودی، حسن البنا اور سید قطب کے ذریعے اسلام کا جو احیا ہوا بیسویں صدی کے اوائل میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مسلمان اسلام پر کتنا عمل کرتے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت آج جذباتی سطح پر اسلام سے وابستہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’جذبے‘‘ کو ’’شعور‘‘ میں ڈھالا جائے۔ جس دن یہ کام ہوگیا اسلام عالمی زندگی کے مرکز میں کھڑا ہوگا۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ترکی میں کمال اتاترک نے اسلام کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے مغربی فکر کے زیر اثر قرآن کی تعلیم و تدریس پر پابندی لگادی۔ برقع کیا اس نے اسکارف تک کو قومی زندگی سے نکال باہر کیا۔ ترکی کی خواتین نے اس صورتِ حال میں چھتری کو پردے کا ’’ذریعہ‘‘ بنایا۔ اتاترک کے سیکولر فاشزم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے چھتری کے استعمال پر بھی پابندی لگادی۔ اس صورت حال میں خیال کیا جاتا تھا کہ اسلام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترکی سے رخصت ہوگیا ہے مگر آج ترکی میں اسلام ترک عوام کی اجتماعی زندگی کا مرکزی حوالہ ہے۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں کمیونزم نے اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی مگر آج اسلام وسطی ایشیا میں مسلمانوں کے تشخص کو Defineکرنے والی حقیقت ہے۔ ان حقائق کے باوجود جاوید چودھری اسلام کے مستقبل سے مایوس ہیں اور وہ اپنی مایوسی کو اپنے لاکھوں قارئین اور ناظرین میں پھیلارہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کے مستقبل سے جاوید چودھری کے مایوس ہونے کا سبب کیا ہے؟۔
اس کا ایک سبب جاوید چودھری کی جہالت یا لاعلمی ہے۔ غالب نے کہا ہے۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
آپ ذرا جاوید چودھری کا یہ فقرہ تو ملاحظہ کیجیے۔
’’مجھے محسوس ہوتا ہے شریعت سعودی میں مکہ اور مدینہ ایران میں قُم اور مشہد تک محدود ہوجائے گی‘‘۔ فقرے میں ’’مجھے محسوس ہوتا ہے‘‘ کا فقرہ اہم ہے۔ ارے اس اسلام کے سلسلے میں جاوید چودھری کے ’’احساس‘‘ کی اوقات ہی کیا ہے! اس سلسلے میں جاوید چودھری دوچار مغربی مفکرین کو کو ٹ کردیتے۔ مگر بدقسمتی سے جاوید چودھری کی ’’میں‘‘ اتنی بڑی ہے کہ اسلام اور اس کا مستقبل بھی اس کے آگے کچھ نہیں بیچتا۔
جاوید چودھری کا دوسرا مسئلہ اقبال کے اس شعر سے سمجھ میں آتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
جاوید چودھری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے ذہنی اور نفسیاتی غلاموں میں سے ایک ہیں۔ اس لیے انہیں لبرل ازم کے غلبے پر تو کامل یقین ہے مگر اسلام کے مستقبل پر انہیں رتی برابر بھی یقین نہیں ہے۔ اسلام کے سلسلے میں کسی غلام کی فکر اس سے آگے جا ہی نہیں سکتی۔
یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اسلام کے مستقبل سے جاوید چودھری کی مایوسی دراصل جاوید چودھری کے ’’انفرادی اسلام‘‘ یا ’’ذاتی اسلام‘‘ سے مایوس ہے۔ جاوید چودھری کے کالموں میں جیسا اسلام ظاہر ہوتا ہے اس کا واقعتا کوئی مستقبل نہیں۔ البتہ اللہ اس کے رسولؐ اور اسلام سے محبت کرنے والے کروڑوں مسلمانوں کے اسلام کا مستقبل شاندار ہے۔