کشمیر پراتفاق رائے کی ضرورت

168

جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ ایک بڑے کشمیر مارچ میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کے لیے 15نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈپیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کے لیے نیشنل ایکشن پلان مرتب کرے اور اس پر عمل درآمد کے لیے نقشہ کار دے، قومی سیاسی قیادت کی کانفرنس طلب کرکے ایک متفقہ قومی کشمیر پالیسی کا اعلان کیا جائے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مالی معاونت کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہیومینٹیرین اسسٹنس فنڈ قائم کیا جائے، ترکی، ایران اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس طلب کر کے کشمیریوں کے حق خودارادیت، انسانی اور سیاسی حقوق کے لیے بھارت کے خلاف واضح موقف اختیار کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں زیر بحث کشمیر مارچ ایسے موقع پر منعقد ہوا ہے جب ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے زبانی دعوئوں اور بے عملی کے باعث مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی یہ مایوسی اور بددلی اس وجہ سے نہیں ہے کہ فاشسٹ بھارتی حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر کو پچھلے ڈیڑھ سو دنوں سے ایک ایسے قید خانے میں تبدیل کر رکھاہے جہاں کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی قلت کے علاوہ مواصلات، ذرائع ابلاغ اور نقل وحمل کے تمام ذرائع پر مکمل پابندی ہے بلکہ لگ بھگ ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں کی اس بددلی اور مایوسی کی اصل وجہ آزادی کشمیر کے بیس کیمپ یعنی پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی روایتی بے اعتنائی ہے۔ اس حوالے سے ماضی کے کربناک قصے چھیڑنے کے بجائے اگر محض موجودہ حکومت کی کوتاہی اور تساہل ہی کومدنظر رکھا جائے تو ایسے میں کشمیریوں کے دکھ درد اوران کے گلے شکوئوں کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہوگا۔
مودی سرکار کی جانب سے اس سال اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو آرٹیکل 370 اور 35A کی متعصبانہ اور ظالمانہ آئینی ترمیم کے ذریعے رات کی تاریکی میں جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے ختم کیا گیا اور اس اقدام کے ذریعے کشمیری مسلمانوں پر جس طرح عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی گئی اس کو دیکھتے ہوئے شروع میں موجودہ حکومت نے جو پرجوش اور جارحانہ انداز اپنایا اس کو دیکھتے ہوئے جہاں پوری قوم اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہاں کشمیری مسلمان بھی حکومت پاکستان سے یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ شاید وقت کے حکمران نہ صرف ان کا مقدمہ اپنے اعلانات اور ظاہری اقدامات کے تناطر میں ہر بین اقوامی فورم پر لڑنے کے لیے کمربستہ ہو چکے ہیں بلکہ ملکی اور قومی سطح پر بھی بعض ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جن کے نتیجے میں اگر ایک طرف کشمیری مسلمانوں کے مسائل میں کمی واقع ہوگی تو دوسری جانب ان اقدامات کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔ اس ضمن میں عام تاثریہ تھا کہ موجودہ حکومت نہ صرف کشمیریوں کی حق خودارادیت کے اصولی مؤقف پر قائم رہے گی بلکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تقسیم کشمیر کے تمام فارمولوں کو مسترد کرتے ہوئے وحدت کشمیر اور حق خودارادیت پر کسی قسم کی سودے بازی کو بھی کسی حال میں قبول نہ کرنے کا واضح اور دوٹوک اعلان کرے گی لیکن چند دنوں کے روایتی اور زبانی کلامی احتجاج کے بعد موجودہ حکومت کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر جس عجیب انداز میں اس پریشان کن صورتحال سے لاتعلق ہوگئی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ حکمران بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات پر ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں جس سے مقبوضہ کشمیر کے محبوس اور مظلوم مسلمانوں کی مایوسی اورناامیدی میں اضافہ فطری امر قرارپائے گا۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ زبانی کلامی احتجاج اور کسی حد تک بین اقوامی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کے سوا موجودہ حکومت اپنے محدود وسائل کے ساتھ اور کر ہی کیا سکتی ہے تو اس ضمن میں کرنے کو تو حکومت بہت کچھ کرسکتی ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کچھ بوجوہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں بھی ہے تو کم از کم بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حالت پر مبنی آئینی شقوں 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد معاہدہ تاشقند اور اعلان لاہورسے تو علیحدگی اختیار کر نے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جب تک ہندوستان اقوام متحدہ کی مسلمہ قراردادوں کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت کو بحال کر کے گرفتار ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو رہا نہیں کرتا تب تک پاکستان کم از کم ا پنی فضائی حدود تو بھارتی جہازوں کے لیے مستقلاً بند کر سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو صدر ٹرمپ کی ثالثی کے دھوکے اور بہکاوے میں آنے کے بجائے عالمی عدالت انصاف میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرکے اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں سے براہ راست عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو درجہ اول کا پاکستانی شہری قراردے کر بغیر پاسپورٹ اور ویزا پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت اور سہولت دینی چاہیے۔ بالفرض اگر سفارتی ودیگر ذرائع سے کی جانے والی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوتیں تو اسلامی جذبے سے سرشار ایک زندہ قوم کے شایان شان آزادی کشمیر کے لیے پوری قوم کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ذہناً اور عملاً تیار کرنے میں تو کم از کم کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ حرف آخر یہ کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی گمبھیر اور مخدوش صورتحال پر موجودہ حکومت کو جہاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فی الفور طلب کرنا چاہیے وہاں تمام مین اسٹریم جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نیز فوج اور عدلیہ سمیت ریاست کے تمام نمایاں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور راہنمائی سے ایک متفقہ اور واضح لائحہ عمل کے ذریعے بھی کشمیریوں کے دکھوں کا کچھ نہ کچھ مداوا ضرورکیا جاسکتا ہے۔