کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کرپٹ عناصر نے مولوی تمیز الدین خان روڈ ( کوئینز روڈ ) پر واقع دو سرکاری بنگلوز اور ان کے درمیان کی راہ داری پر مشتمل مجموعی طور پر ساڑھے 5 ہزار گز پلاٹ کو مبینہ طور پر قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نئے دعویداروں کی ملکیت میں دینے کے لیے موٹیشن کی کارروائی مکمل کرلی۔ جسارت کی تحقیقات کے مطابق مولوی تمیز الدین خان روڈ پر حبیب پبلک اسکول کے سامنے واقع کے ایم سی کے 2 سرکاری و رہائشی عمارتوں اور ان کے درمیان سے گزرنے والے راہداری کی زمین نجی کاروباری افراد کے ہاتھوں ٹھکانے لگانے کے لیے حتمی طور موٹیشن کی کارروائی مکمل کرلی اور اس مقصد کے لیے چالان بھی تیار کر لیا۔ اس سارے اسکینڈل کا تعلق کراچی پریس کلب کی موجودہ عمارت سے بھی منسلک ہے۔ کراچی پریس کلب کی موجودہ عمارت کے مالکان ہونے کے مبینہ دعویداروں نے 2012ء میں عمارت صحافیوں سے خالی کرانے کا نوٹس دیا جس پر اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے پلاٹ مالکان کو پریس کلب کی عمارت سے دستبردار ہونے کے لیے متبادل جگہ کے بدلے میں آمادہ کر لیا۔ اس مقصد کے لیے اس وقت کی صوبائی حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مولوی تمیز الدین خان کے ڈھائی ڈھائی ہزار اسکوائر یارڈ کے 2 بنگلوز مالکان کو دینے کی پیشکش کی جسے فوری قبول کر لیا گیا۔ اس پیشکش کے بعد مذکورہ بنگلوز نمبر 2 اور کوئنز کوارٹرز جس میں کے ایم سی نے ریسٹ ہاؤسز قائم کیے ہوئے تھے کو صوبائی حکومت سے معاہدے کے تحت مذکورہ مالکان ذکریہ عبدالغنی کے حوالے کرنے کی کارروائی شروع کی اس دوران مذکورہ بنگلوز عارضی طور پر حکومت کے اہم اداروں کے قبضے میں تھے۔ مگر اس کے باوجود بنگلوز کی لیز کی کارروائی مکمل کی گئی جو قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ خیال رہے کہ لیز کی کارروائی جائداد کا قبضہ ملنے کے بعد مکمل ہوسکتی ہے۔ اس عمل میں قوانین کی سب سے بڑی کارروائی یہ کی گئی کہ مذکورہ بنگلوز کے درمیان موجود 500 گز رقبے کی راہداری کو بھی کے ایم سی نے ساز باز کرکے فروخت کردیا جبکہ دونوں بنگلوں کے پلاٹوں کو تجارتی بنیاد پر لیز کر دیا جو کلب کی عمارت کے بدلے کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ کے پی سی کی عمارت یا اس کی پوری جگہ کے بدلے میں دعویداروں کو صرف رہائشی بنگلوز دینے کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف مذکورہ دونوں سرکاری بنگلوز کے پلاٹس بھی رہائشی کی کیٹیگری بھی رہائشی تھی انہیں کمرشل بنیاد پر لیز نہیں دی جاسکتی تھی۔ کے ایم سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بنگلوز کو کمرشل بنیاد پر لیز دے کر بھی کم و بیش 7 ارب کا نقصان پہنچایاگیا ہے۔ یہی نہیں ان بنگلوں کے پلاٹوں کی موٹیشن کے لیے 20 لاکھ 55 ہزار 528 روپے کا چالان جاری کیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ چالان گزشتہ ماہ جاری کیا گیا اس مقصد کے لیے کے ایم سی محکمہ لینڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اعتراض کی بنیاد پر موٹیشن کی کارروائی روک دی تھی۔ جس پر ایک دوسرے افسر کو اس کام کے لیے تعینات کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسران کو مبینہ طور پر میئر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس ضمن میں ڈائریکٹر لینڈ شیخ کمال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ابھی تک ان پلاٹس کی موٹیشن نہیں کی گئی۔ موٹیشن کی کارروائی روک دی گئی ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پورے معاملے کی تصدیق کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ دونوں بنگلوز پر مشتمل پلاٹوں کی لیز 90 کی دہائی میں رینجرز کی موجودگی میں کر دی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب دینے گریز کیا کہ پلاٹ کے قبضے سے قبل لیز کیسے دی گئی تھی ؟ ۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ان پلاٹوں کی تجارتی بنیاد پر موٹیشن کیسے کی جارہی ہے ؟ شیخ کمال نے بتایا کہ دونوں پلاٹ کے مالک غنی ذکریہ تھے اب ان کے وارثوں نے یہ درخواست دی ہے کہ اس پلاٹ کا تجارتی بنیاد پر موٹیشن کیا جائے۔ تاہم ان کی اس درخواست پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
سرکاری اراضی