ـ2019ء یوٹرن کا سال

168

سال 2019ء بھی رخصت ہو رہا ہے۔ آج سال کا آخری دن ہے۔ اس سال دنیا نے بھی بہت کچھ دیکھا لیکن پاکستانیوں کے لیے یہ سال بہت سی ہولناک یادیں چھوڑ کر جارہا ہے۔ اس سال پاکستانیوں سے کشمیر چھین لیا گیا، بابری مسجد کے بارے میں بھارتی عدالت نے برعظیم کے مسلمانوں کو شدید تکلیف پہنچائی اور پھر متنازع شہریت قانون نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ مقبوضہ کشمیر کے محصور عوام نے تقریباً آدھا سال کرفیو میں گزار دیا۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت نے اس سال کو یوٹرن کا سال ثابت کیا۔ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نیازی نے اپنے ہر وعدے سے انحراف کیا ہر وعدے کے برعکس یوٹرن لیا۔ مہنگائی کے اعتبار سے پاکستانی قوم کے لیے 2019ء نہایت تکلیف دہ رہا۔ اس سال کے دوران ڈالر کی شرح دیکھتے ہی دیکھتے 170کے قریب جا پہنچی اور اب ڈالر155 کے قریب گھوم رہا ہے۔ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی کے نرخ میں اضافہ پاکستان کی اپنی پیداو ار قدرتی گیس دو سو فیصد سے زیادہ مہنگی کردی گئی۔ مجموعی طور پر گزشتہ ششماہی میں مہنگائی کی شرح 11فیصد رہی۔ اس ساری صورت حال کے باوجود ملک بھر میں بجلی اور گیس کا بحران جاری رہا سال کا آخری دن بھی گیس اور سی این جی کی فراہمی کے حوالے سے بدترین رہا۔ یہاں تک کہ شدید سردی میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی۔ حکومتی پالیسیوں پر تاجر جیسا کمزور شعبہ بھی اب کھلے عام تنقید کرنے لگا ہے۔ ناقص معاشی پالیسیوں نے صنعتی پیداوار کم کردی ہے۔ برآمدات کا حجم بھی کم ہوگیا ہے۔ 2019ء کا آغاز ایک کروڑ نوکریوں ، پچاس لاکھ گھروں اور ترقی کے وعدوں پر ہوا تھا لیکن سال کے اختتام تک 70لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ہزار ہا لوگوں کے سروں سے چھت چھینی جا چکی ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ پورا ہونا تو درکنار اس جانب سنجیدہ پیش رفت بھی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ پورے ملک میں چھوٹے کاروباری افراد بری طرح پس رہے ہیں جبکہ بڑے تاجر بھی پریشان ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے تو تبصرہ کیا ہے کہ نا اہل حکومت نے ایک سال ہی میں ملک پر قرضہ، مہنگائی اور کرپشن ہر چیز میں اضافہ کردیا ہے۔ رہی سہی کسر آج سال کے آخری روز پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ کر کے پوری کی جائے گی۔ یہ پرانے سال کا آخری اور نئے سال کا پہلا تحفہ بھی ہوگا۔ اگر چہ حکومت نے اگلے سال کے لیے اچھی اچھی خبریں سنائی ہیں لیکن یہ صرف وعدے ہیں نتائج توسال 2020ء کے 31دسمبر کو سامنے ہوں گے۔ اور لوگوں کا یہی خیال ہے کہ دونوں برسوں میں انیس بیس ہی کا فرق ہوگا۔