ریاست کے ستونوں کو حد میں کون رکھے گا؟

138

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ریاست کے تینوں ستون حدود میں رہیں تومشکلات نہیں ہوں گی ۔ وہ ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے ۔ گفتگو کا سارا مرکز و محور نیب ترمیمی آرڈیننس تھا ۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ حکمران اور بڑی سیاسی جماعتیں قومی سطح پر دنگل کی کیفیت پیدا کر کے نا تجربہ کار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے تماشے دکھاتی ہیں ۔ اب نیب قوانین میں ترمیم کے آرڈیننس کے حوالے سے شور مچا ہوا ہے ۔ وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا ، اب نیا رنگ دیا جا رہا ہے ۔ انہوںنے تھوڑا سا نزلہ سندھ حکومت پر بھی گرایا اور کہا کہ سندھ حکومت سیاسی بیانات نہ دے وفاق سے تعاون کرے ۔ نیب آرڈیننس سے متعلق اسی قسم کی باتیں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی ہیں ۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ احتساب ختم ہونے یا این آر او دینے کا تاثر درست نہیں ۔ اس قانون کی غلط تشریح کی جا رہی ہے ۔ اس حوالے سے جتنی وضاحتیں کی جا رہی ہیں بات اتنی ہی زیادہ اُلجھ رہی ہے۔ شہزاد صاحب کہتے ہیں کہ نیب کو کرپشن ثابت کرنی ہو گی ۔ تو کیا نیب اس سے پہلے قانونی طور پر اس کا پابند تھا۔عملاً ہو بھی یہی رہا تھا ۔جس کو چاہا کسی بھی الزام میں پکڑ لیا ،مہینوں مقدمہ ہی نہیں چلا ۔ جب مقدمہ شروع ہوا تو الزام ثابت نہیں ہو سکا ۔یہاں تک کہ پہلی مرتبہ نیب عدالت ہی کو ملزم کو ضمانت دینا پڑی ۔ عجیب و غریب کھچڑی بنتی جا رہی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن نیب آرڈیننس کے چکر میں ہیں اور ریاست کے ایک ستون انتظامیہ کے ادارے فوج کے سربراہ کا معاملہ دوسرے ستون کے پاس پڑا ہے ۔ اگر دوسراستون یہ معاملہ قانون سازی کے ذریعے حل نہیں کرے گا تو تیسرا ستون اس پر فیصلہ دے گا ۔ یہ کس قسم کے لوگ اس ملک میں حکمرانی کررہے ہیں ۔ا ن سے کوئی نوٹیفکیشن بنتا ہے نہ قانون ، آرڈیننس جاری کرتے ہیں تو اسے واپس لینا پڑتا ہے ۔ اب نیب آرڈیننس کا بھی یہی حشر ہونے جا رہا ہے ۔ وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ تینوں ستون حدود میں رہیں ۔ لیکن ان ستونوں کو حدود میںکون رکھے گا ۔ یہ کام تو پارلیمنٹ کا تھا جو جمہوری نظام میں سب سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے لیکن فوجی گملوں کی پنیری سے اُگنے والے سیاسی بونے ، پودے ھی نہ بن سکے ، تناور درخت کیا بنیںگے ۔ پھر وہ عدلیہ اور انتظامیہ کو کس طرح چلائیں گے ۔ اس کے بجائے مقننہ سب سے زیادہ کمزور ستون بن گئی ہے ۔ ریاست کے تینوں ستونوں کے درمیان توازن کے لیے چوتھے ستون صحافت کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح سیاست میں پنیری والے سیاستدان ہیں اسی طرح اس پنیری کی قلم لگا کر صحافت میں بھی شاخیں پھیلائی گئی ہیں ۔ پھر یہ تمام ادارے ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں ۔ پاکستانی حکومت اور اپوزیشن چند روز نیب آرڈیننس کے موضوع پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہیںگے اس کے بعد کوئی اور کھیل شروع ہو جائے گا ۔ گویا کوئی ستون اپنی حدود میں رہنے پر تیار نہیں جو ملک کے لیے تباہ کن ہے ۔ حکومت کی جانب سے ایک رٹ لگائی جاتی رہی ہے کہ چوروں کو نہیں چھوڑیں گے پھر جن لوگوں کو چور کہتے نہیں تھکتے تھے وہ کسی نہ کسی طرح ملک سے بھی نکل گئے ورنہ جیلوں سے باہر آ رہے ہیں کسی کے خلاف مقدمات منطقی انجام کو نہیں پہنچ رہے ہیں ۔ صرف نعرے لگ رہے ہیں ۔ دوسری جانب بھارت کشمیر میںمظالم سے بڑھ کر پور ے بھارت میں مسلمانوں کی شہریت ہی کو مشتبہ بنا رہا ہے لیکن اس کو ہمارے حکمرانوں نے اپنا مسئلہ سمجھا ہی نہیں تو رد عمل کیا دیں گے ۔ ان کا مسئلہ ہی کچھ اور ہے ۔ بنگلہ دیش میں پھانسیاں ان کا اندرونی معاملہ ہیں ۔ بھارت میںمتنازع شہریت قانون سے قائد اعظم کا وژن تو سچ ثابت ہو گیا لیکن قائد اعظم کے وارث کیا کر رہے ہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بیشتر وزراء نے احتجاج کیا ہے کہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر ترمیم آرڈیننس جاری کردیا گیا اور وہ عوام کو وضاحت دینے سے قاصر ہیں۔