مودی نہیں بھارت فاشسٹ ہے

237

سازشی منصوبہ ساز جب اپنا کام کرتے ہیں تو ان کے پاس پلان اے، بی، سی سارے تیار ہوتے ہیں۔ چناں چہ ہر جگہ یہ پلان اپنا کام دکھاتا ہے۔ بھارتی حکومت نے جب کشمیر میں 5 اگست کا اقدام کیا تو اسے معلوم تھا کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے اور کہاں کہاں سے ردعمل آئے گا۔ چناں چہ مودی سرکار نے بڑی چالاکی سے کشمیر میں کرفیو، سختیاں، مواصلاتی رابطوں پر پابندی، موبائل فون، سوشل میڈیا سب بند کرکے ہر فورم پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کا مسئلہ اُٹھا دیا۔ اب سب کی آواز یہ تھی کہ کشمیر میں خوراک اور دوائیں پہنچائی جائیں۔ عوام کا دُنیا سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے اسے بحال کیا جائے اور پھر او آئی سی، پاکستانی دفتر خارجہ اور حکومت سب نے اسے انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ بنادیا۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ پس پشت چلا گیا اور اب ڈیڑھ سو دن ہونے کو ہیں لوگ بھارتی قبضے کے بجائے انسانی حقوق، سردی، محصور کشمیری، مواصلاتی رابطوں، دوائوں اور خوراک وغیرہ کی بات کررہے ہیں، تو یہ تھا 5 اگست کا پلان اے بنانے والوں کا پلان بی۔ اور ان کے پلان سی پر بھی عمل شروع ہوگیا ہے۔ بھارت نے نئے شہریت قانون کے ذریعے جو فساد شروع کیا ہے اس پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں بھارتی اور مغربی میڈیا اسی پلان کے ذریعے اسے نریندر مودی کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ بطور سربراہ حکومت یہ نریندر مودی کا کام ہے لیکن اس کام میں بھارتی اسمبلی، تمام ادارے پولیس، فوج اور عدالت عظمیٰ تک شامل ہیں۔ لیکن ہر جگہ مودی کو ہٹلر کہا جارہا ہے۔ یہ معاملات صرف مودی نے نہیں بھارت نے کیے ہیں، سازشی پلان سی کے ذریعے متعصب، دہشت گرد، انسانی حقوق کی پامالی کرنے والی فاشسٹ ریاست بھارت کی جگہ سارا الزام ایک شخص پر ڈالا جارہا ہے۔ اس طرح اگر کبھی عالمی ادارے بھارت کے خلاف کوئی ایکشن بھی لیں اور کسی قسم کی کارروائی کی بات ہو تو کارروائی یا انسانی حقوق کا دشمن مودی ہی ثابت ہو، ایک فرد نشانہ بنے گا بھارت بچ جائے گا۔ لیکن یہ کسی طور انصاف نہیں ہوگا بلکہ بھارت کا اصل چہرہ چھپانے کے مترادف ہوگا۔ بھارت غیر ہندوئوں کے لیے جہنم ہے، بلکہ ہندو اقلیتوں کے لیے بھی۔ مسلمان سب سے بڑا نشانہ ہیں۔ جو کام مودی نے کیے ہیں بھارت میں اس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ بابری مسجد کانگریس کے دور میں شہید کی گئی، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کے دور ہی میں مسلمانوں اور سکھوں کا قتل عام ہوا۔ مودی اگر گجرات کے قسائی کے نام سے مشہور ہے تو اس نے ذاتی حیثیت میں یہ سب کچھ نہیں کیا تھا اس کی پارٹی تھی، اس کے پیچھے حکومت تھی، پوری بھارتی مشینری اقلیتوں کی دشمن ہے۔ گولڈن ٹیمپل میں اندرا گاندھی نہیں گھسی تھی بھارتی فوج گھسی تھی، ریاست نے قتل عام کیا تھا۔ اگر غیر ملکیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو غیر ملکی خواتین کی عزت تارتار کرنے میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ پوری پوری بس اغوا کرکے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، چلتی بس میں طالبات کی آبروریزی کے واقعات بھارت ہی کا خاصا ہیں، دنیا بھر کے سٹے بازوں کا مرکز ممبئی ہے، کرکٹ کی دنیا کو سٹے بازوں کے جال میں پھنسانے والے سارے بھارتی ہیں، نام نہاد سیکولرازم کا جتنا مذاق بھارت میں اُڑایا جاتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ ایک سروے کے مطابق بھارت کے 30 کروڑ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے تعلیم، روزگاری، پارلیمنٹ کہیں بھی نمائندگی نہیں ملتی۔ بظاہر کاروبار کے لیے سب آزاد ہیں لیکن مسلمان کے کاروبار پر سب کی نظریں ہیں۔
یہ جو ہر طرف سے مودی ہٹلر، مودی فاشسٹ کی باتیں کی جارہی ہیں اور ہمارے سلیکٹڈ حکمران بھی یہی کررہے ہیں اسے بند کیا جائے، اصل مجرم بھارت ہے یہ ملک ہی فاشسٹ ہے۔ کیا دہلی جامعہ اسلامیہ میں مودی داخل ہوا تھا۔ طالبات پرتشدد مودی نے کیا تھا۔ دہلی کی جامع مسجد، کشمیر کی مساجد میں کون گھستا ہے، گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو کون اُٹھا کر لے جاتا ہے، بھارتی ریاست کے حکم پر پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیاں، پھر صرف مودی مودی کیوں ہورہا ہے۔ یہ جو سڑک پر لڑکی کے بال پکڑ کر گھسیٹ کر لے جانے کی ویڈیو ہے جس میں لڑکی کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں مرد اہلکار کمر سے پکڑ کر گاڑی میں پھینک رہا ہے۔ یہ مودی نہیں بھارتی ریاست ہے پورے بھارت میں فاشزم سرکاری حکم پر چل رہا ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں، حکمران، فوج اور بین الاقوامی اداروں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی۔ اب مودی مودی نہیں کہا جائے بلکہ بھارت کے خلاف مہم چلانی ہوگی۔ دنیا میں امریکا کے بعد بھارت دوسری بڑی ریاست ہے جو نہتے اور بے قصور لوگوں پر ریاستی حکم پر تشدد کرکے انہیں ہر طرح کے حقوق سے محروم کررہی ہے۔ کشمیر کے معاملے کو انسانی حقوق کا معاملہ نہ بننے دیا جائے، یہ کشمیریوں کی زمین پر قبضے اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا معاملہ ہے۔ اور غور سے دیکھیں تو کشمیر، قادیانی، کرتارپور، گرداس پور، پاکستانی عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کے تنازعات سب کا آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔ وسیع کینوس پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔