ہذیان

147

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی مراد بر نہ آسکی مگر ان کے قائد کی مراد بر آگئی ہے۔ اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اینٹ کا ہدف کس کا سر بنے گا۔ احتساب عدالت نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو آئین شکنی کے الزام میں سزائے موت سنادی ہے۔ جہاں دو چار آدمی اکٹھے ہوتے ہیں وہاں آرٹیکل 6 پر گفتگو ہوتی ہے اور گفتگو کا موضوع آئین شکنی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ قانون کے محافظ آئین اور قانون کو پائوں تلے روندتے ہیں تو عدلیہ آنکھیں کیوں بند کرلیتی ہے، عوام آرٹیکل 6 پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کیوں کہ اس کا اطلاق تو ہر سرکاری ملازم پر ہوتا ہے، ہر ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو کیا سبھی کو پھانسی دے کر چوراہوں پر لٹکادیا جائے۔ وکلا کی تحریک کے وقت ہم نے انہی کالموں میں بارہا لکھا تھا کہ یہ تحریک نظام عدل کو ملیامیٹ کردے گی۔ میاں نواز شریف کے آرمی چیف پرویز مشرف کے طیارے کو اغوا کرکے ہر ممکن کوشش کی کہ اسے پاکستان میں اُترنے کے بجائے بھارت کے قریبی ائرپورٹ پر اُتارا جائے، اگر فوج ایکشن نہ لیتی تو مسافروں کو بچانے کے لیے انڈین ائر پورٹ پر اُترنا مجبوری بن جاتا کیوں کہ طیارے میں صرف چند منٹ کا ایندھن بچا تھا۔ آصف علی زرداری نے آئی ایس آئی کے چیف کو انڈیا کے حوالے کرنے کا حکم صادر کیا تھا مگر وطن عزیز کی عدلیہ جو ازخود نوٹس میں اپنی مہارت اور چابک دستی کا مظاہرہ کرنے میں تاخیر نہیں کرتی حالاں کہ مقدمات کے فیصلے سنانے میں کئی کئی نسلیں برباد کردیتی ہے، کیا یہ اختیارات سے تجاوز نہیں ہے۔
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ آرمی ترجمان کو بیان دینے سے پہلے آرٹیکل 6 پڑھ لینا چاہیے تھا، ان حضرات نے خود آرٹیکل 6 نہیں پڑھا ہے، آرٹیکل 6 کا اطلاق ہر اس ملازم پر ہوتا ہے جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے۔ میاں نواز شریف بڑی رعونت اور تکبر سے کہا کرتے تھے کہ وہ پرویز مشرف کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ طیارہ کیس میں انہیں سزا ہوئی تھی ، مگر عمل درآمد نہ ہوا۔ عدالتوں میں آئے دن جو تماشا ہوتا ہے وہ آئین شکنی کی بدترین مثال ہے مگر کوئی بھی اس کا نوٹس نہیں لیتا، گویا یہ قانون صرف فوج کے لیے بنایا گیا ہے۔ پی آئی سی پر حملہ آوروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے کیوں کہ سابق چیف جسٹس چودھری افتخار نے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے وکلا کی جو فوج تیار کی ہے اس کا مقابلہ کون کرے گا۔ یہ بھی اختیارات سے تجاوز ہے کہ ڈاکٹروں پر دبائو ڈالا جارہا ہے، صلح کرلو ورنہ۔ قانون تو ہمارا خانہ زاد ہے۔ چودھری افتخار نے اپنے بیٹے کے معاملے میں جس طرح قانون کی دھجیاں اُڑائی تھیں وہ کیا تھا؟ عدلیہ میاں نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان صلح کراسکتی تھی، اس وقت کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ قابل سماعت نہیں کیوں کہ کسی شخص کی درخواست پر غداری کا مقدمہ نہیں چل سکتا، یہ کام کابینہ کا ہے اس دلیل سے خدا کی نیابت کرنے والے لاجواب ہوگئے اور جب تک اٹارنی جنرل موجود رہا کوئی پیشی نہیں دی گئی، گویا عدلیہ فوج کو رسوا کرنے کا تہیہ کرچکی تھی۔
جسٹس مسٹر وقار احمد سیٹھ کا فیصلہ ایک جسٹس کا فیصلہ نہیں، یہ ہذیان ہے، قانون، مذہب اور اخلاقیات اس کی مذمت کرتے ہیں۔ موصوف نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، ان پر بھی آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے مگر اس پر کوئی توجہ دینے پر آمادہ نہیں کیوں کہ یہ صرف آرمی چیف کے لیے بنایا گیا ہے۔ خدا جانے قانون کی لغت میں غدار کے کیا معنی ہیں؟۔ غدار وہ ہوتا ہے جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہوتا ہے، جو ملکی راز دشمن کو دیتا ہے، یہ کتنی شرم ناک بات ہے جنہوں نے ملکی راز انڈیا کو دیے وہ آج بھی معزز اور محترم سمجھے جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آرمی کا مورال ڈائون کرنے والا محب وطن کیسے ہوسکتا ہے؟ سیٹھ جی کا کہنا ہے کہ وہ ریسلنگ بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ مارپیٹ کے مناظر سے مسرور ہونے والے اذیت پسند ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی مثال دینے والوں کو یہ یاد کیوں نہیں کہ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھی ایمرجنسی لگائی تھی مگر ان پر کسی نے غداری کا مقدمہ دائر نہیں کیا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری عدلیہ عوام کے حقوق کا تحفظ
کرنے کے بجائے فوج اور وزیراعظم کو ہدف بنانے میں دلچسپی لیتی ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ ہمارے نزدیک کوئی کمزور ہے نہ طاقتور ہے، ہم نے ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا، دوسرے کو جیل میں پھینک دیا اور چند دنوں کے بعد ایک اور اہم فیصلہ آنے والا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ موصوف نے بین السطور یہ کہا تھا کہ ہم سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں۔ انصاف پر مبنی فیصلے جرم کی نوعیت اور ارتکاب کی وجہ جانے بغیر ممکن نہیں خودکشی کرنے والے سرکاری ملازم کو پنشن اور دیگر مراعات سے محروم کردیا جاتا ہے کہ قانون کی کتابوں میں یہی لکھا گیا ہے۔ رینجرز کے ایک سپاہی نے خودکشی کرلی، اس کے والد نے جنرل صاحب سے ملاقات کی اور کہا کہ اس کے بیٹے کو قتل کیا گیا ہے، جنرل صاحب نے کہا تمہارے بیٹے نے ڈیوٹی کے دوران او پی پر اپنی بندوق سے خود کو ہلاک کیا ہے تم کسی اور کو اس کی ہلاکت کا ذمے دار کیسے ٹھیراسکتے ہو؟۔ جواباً کہا گیا کہ اس کا بیٹا ذہنی دبائو میں مبتلا تھا اور زیر علاج تھا مگر اس کو ایسی پوسٹ پر بھیج دیاگیا جہاں وحشت اور ویرانی کے سوا کچھ نہ تھا اس وحشت اور ویرانی نے اس کا ذہنی دبائو اتنا بڑھا دیا کہ وہ خودکشی پر مجبور ہوگیا۔ جنرل صاحب نے ماہر نفسیات سے رائے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں مریض خودکشی کرسکتا ہے۔ جنرل صاحب نے مرحوم کی پنشن اور دیگر مراعات بحال کردیں۔ یہ ہے انصاف مگر انصاف عدالتوں کا مسئلہ نہیں، طاقت کا اظہار ہے۔